آج پاکستان میں‘ آج عالم اسلام میں محمد علی جناح جیسا کوئی دوسرا لیڈر کیوں نہیں؟ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ریا کار، یہ دریوزہ گر، یہ بھکاری، یہ سب کے سب ایک دن تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیئے جائیں گے۔ عبد دیگر عبدہ چیزے دگر بندہ اور ہوتا ہے، اللہ کا بندہ کچھ اور وہ دو عظیم شخصیات اقبالؔ اور قائد اعظم محمد علی جناح۔ اپنی آنکھ سے جنہوں نے زندگی کو دیکھا اور برتا۔ نہایت انہماک سے اپنی ترجیحات مرتب کیں۔ پھر عمر بھر طے شدہ منزلوں کے مسافر رہے۔ دوسروں کو لبھانے بلکہ چکمہ دینے میں پنڈت جواہر لعل نہرو اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ شیخ عبداللہ ایسے عبقری کو اسی ڈھب سے سموچا نگل لیا تھا۔ خبط عظمت جگا کر، کشمیر کی بادشاہت کا جھانسا دے کر۔ قائدِ اعظم محمد علی کی تردید کے لیے اقبالؔ سے انہوں نے کہا: مسلم برصغیر کے غیر متنازعہ لیڈر تو آپ ہیں۔ اقبالؔ کا جواب یہ تھا: میں تو ان کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔ ایک دوسرے سے، ان دونوں تاریخ ساز ہستیوں کو اختلاف بھی ہوا کہ زندہ لوگ اختلاف بھی کیا کرتے ہیں۔ جناح نے مگر یہ کہا تھا: پاکستان میں گورنر جنرل کے منصب اور اقبال ؔمیں سے اگر ایک کا انہیں انتخاب کرنا پڑے تو وہ بہرحال مفکر کو اپنا لیں گے۔ انگریزی ادب کے اسلوب میں شاید یہی عظیم ترین خراجِ تحسین ہے، جو ایک شخص دوسرے کو پیش کر سکتا ہے۔ حیرت سے طالب علم نے سوچا:اس کے باوجود شاعر نے اس اجلے سیاسی مفکر کی نظم میں کبھی تحسین نہ کی۔ آخر کیوں؟ ڈاکٹر خورشید رضوی شاید اس سوال کا شافی جواب دے سکیں۔ یہ کہ شاعر کے قلب میں گداز کیونکر پھوٹتا اور الفاظ کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ محمد علی جوہر پہ ایسے فدا ہوئے کہ زندگی میں ان کی تحسین نہ کی۔ سفرِ آخرت پر ایسی معرکے کی نظم لکھی کہ شعر کی تاریخ میں اس کی نظیر باید و شاید ہو گی۔ رفت زاں راہے کہ پیغمبر گزشت اس راہ سے، وہ روح آسمان تک پہنچی، جس پر پیغمبر علی الصلوۃ والسلام نے معراج کا سفر کیا تھا۔ بیت المقدس سے افلاک کی بلندیوں تک۔ کیا محمد علی جوہر کے طرزِ احساس میں وحدانیت پروردگار کا تصور اس قدر انہیں خوش آیا تھا؟ کیا ان کا وہ انوکھا بانکپن اور خیرہ کن شجاعت؟ ہر چند بااندازِ دگر یہ سب عوامل تو خود محمد علی جناح کی ہستی میں بھی کارفرما تھے۔ گردن فراز اور سربلند، عمر بھر مرعوبیت انہیں چھو کر نہ گزری۔ کبھی تھکے نہ جھکے۔ ژولیدہ فکری کا شکار ہوئے اور نہ کبھی کسی سے مدد کے طالب۔ محمد علی جوہرؔکی طرح ایک بحرِ بے کنار۔ جوہرؔ نے کہا تھا: توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے ٹھیک یہی بات قائد اعظم نے کہی۔ ایک نہیں تین مواقع پر۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے، ایک بار مسلم لیگ کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے۔ دوسری باری پہلی مرتبہ علی گڑھ کے طلبہ سے، جن کے درمیان وہ ایسے شاد تھے کہ سیاسی زندگی میں کم ہوئے ہوں گے۔ متین آدمی کی حسّ ِ مزاح جاگ اٹھی تھی۔ عشروں کے بعد سر سید احمد خان کی درسگاہ سے کانگریس کی بساط لپٹ چکی اور مسلم لیگ کا پرچم اس طرح کھلا کہ آج تک لہراتا ہوا لگتا ہے۔ ارشاد کیا: آدمی کے دن پھرتے ہیں تو اس کے امیر رشتہ دار اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بات کہی، آخری بار ایک امریکی اخبار نویس کے مقابل جس کا اظہار کیا تھا۔ ہندوستان کو متحد رکھنے کی شرط پر گاندھی جی نے متحدہ برصغیر کی وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی۔ سات سمندر پار سے آنے والے اخبار نویس نے پوچھا: اس سے زیادہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ ’’کچھ بھی نہیں‘‘۔ جواب یہ تھا ’’اس کے سوا میں کچھ بھی نہیں چاہتا کہ روزِ حشر اللہ کے حضور پیش کیا جاوں تو وہ کہے، محمد علی! میں تم سے شاد ہوں،''Well Done Mohammad Ali''۔مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ اور علی گڑھ کے طلبہ سے قائدِ اعظم نے کہا تھا: زندگی کی سب مسرتیں میں دیکھ چکا۔ اس کے سوا کوئی آرزو اب باقی نہیں کہ جب اس دنیا سے اٹھوں تو میرا ضمیر مطمئن ہو کہ مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ایسا عجیب آدمی۔ یارب ایسا عجیب۔ شملہ کے مسلمانوں نے ان کے اعزاز میں جلوس برپا کیا تو شاہراہوں پہ سرخ مخمل بچھایا گیا۔ بائی سائیکلوں کا جلوس، مسافر جس میں پچھلی نشست پر براجمان ہوتا ہے۔ شادماں اور آسودہ اپنا ہیٹ انہوں نے گود میں رکھ لیا اور گردوپیش پہ نگاہ کرتے رہے، جہاں کتنی ہی بار وہ آئے اور کتنی ہی بار کوہسار کے دل کش نظاروں سے محظوظ ہوئے تھے۔ چہل قدمی کو نکلتے توچلمنوں کے پیچھے سے نگاہیں تعاقب کیا کرتیں۔ کسی چلمن کو البتہ اس نگاہ کا التفات کبھی نصیب نہ ہوا۔ التفات کیا، ایک اچٹتی سی نظر بھی نہیں۔ عمر بھر نہیں، کبھی نہیں۔ نجابت اور وقار میں، ان کے تیور اولیا کے سے تھے۔دنیا بھر کے سیاستدان، سیاستدان ہی کیا، ہر طرح کی عوامی شخصیات ہمیشہ سے مقبولیت پہ جان دیتی آئی ہیں۔ اسلامی فقہ میں اسی کو’’حبّ ِ جاہ‘‘ کہا جاتاہے۔وہ نفسیاتی کیفیت جو دہری شخصیت کو جنم دیتی اوربالاخر تباہ کر ڈالتی ہے۔ سچ کہا تھا‘ مولانا شبیر احمد عثمانی نے: قائداعظم بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔دکھا وا انہیں چھو کر نہ گزرا تھا۔ظاہر و باطن میں ایک ذرا سا فرق بھی نہ تھا بلکہ شاید یہ کہا جا سکے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں زیادہ تابناک تھا۔ متوکل، ایسے متوکل کہ پلٹ کر دیکھئے تو سلطان محمد فاتح اور صلاح الدین ایوبی کے سوا، ان کا کوئی ہم سر شاید ہی دکھائی دے۔ کسی نے سرگوشی کی: قائد اعظم، گود ہی میں ہیٹ کو پڑا رہنے دیجئے۔ مسلمان اس کے شائق نہیں، جیسے ہی جملہ مکمل ہوا، ہیٹ اٹھایا اور سر پہ جما دیا، متوکل وہ ہوتا ہے، دائم، جس کی نگاہ خالق پہ رہے، مخلوق سے یکسر وہ بے نیاز ہوتا ہے۔ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی کچھ لوگ یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ بالیدگی ان میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی نظر میں ان کا قد کاٹھ بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ کچھ مثالیں اس کی ادب میں پائی جاتی ہیں۔ حافظ شیراز، سلطان باہو، بلھے شاہ، فرید الدین شکر گنج، اسد اللہ خان غالبؔاور اقبالؔ۔گلبدین حکمت یار نے ایک بار بتایا کہ جیلوں میں بند افغان لیڈر سگریٹ کی خالی ڈبیوں اور بچے کھچے بوسیدہ کاغذوں پر اقبالؔ کے اشعار ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر بھیجا کرتے۔ ایرانی انقلاب میں اسی کے نغمے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ اقبال ؔہی کیوں تو جواب ملا کہ ایسے میں حافظ و سعدی ہمارے کسی کام کے نہیں۔ خواجہ مہر علی شاہ نے کہا تھا: وہ چلے جاتے ہیں مگر نہیں جاتے۔ مٹی اوڑھ کے سو جائیں، تب بھی خلق ان کے دیدار کو دیوانہ آتی ہے۔ زمیں کے اندر بھی روشنی ہو چراغ مٹی میں رکھ دیا ہے آج پاکستان میں‘ آج عالم اسلام میں محمد علی جناح جیسا کوئی دوسرا لیڈر کیوں نہیں؟ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ریا کار، یہ دریوزہ گر، یہ بھکاری، یہ سب کے سب ایک دن تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیئے جائیں گے۔ عبد دیگر عبدہ چیزے دگر بندہ اور ہوتا ہے، اللہ کا بندہ کچھ اور