انسانی کی خدمت کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے عبدالستار ایدھی کا یوم ولادت گزشتہ روز منایا گیا ، ملک بھر میں تقریبات ہوئیں ،جھوک سرائیکی کی فکری نشست میں مقررین نے کہاکہ انسان کی پہچان اس کے کام کے حوالے سے ہے۔ دھن دولت اور محل مربعے اگرانسانی عظمت کا پیمانہ ہوتے تو آج فرعون اور قارون کا نام گالی نہ بنتا۔ بڑے گھروں میں چھوٹے انسان اور بہت بڑے انسان جھونپڑیوں میں پیدا ہوتے اکثر دیکھے ہیں، انسانیت سے پیار کرنے والے انسان آسمان پر نہیں، زمین پر ہوتے ہیں مگر آسمان ان کی عظمت کو جُھک کر سلام کرتا ہے۔ میں آج ایک ایسے انسان کی بات کر رہا ہوں جو اپنی خدمت کے حوالے سے دھرتی کا آسمان ہے۔ اس عظیم ہستی کا نام عبدالستار ایدھی ہے۔بلاشبہ عبدالستار ایدھی ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے ، وہ بادشاہ نہیں مگر انسانی خدمت کے اعتراف میں کئی ملکوں کے بادشاہ اس کو جھک کر سلام کرتے ہیں، پاکستان کے بے تاج بادشاہ نے کبھی کسی دوسرے ملک علاج کی خواہش نہیں کی ، ملک کے امراء کا علاج بیرون ملک ہوتا ہے عبدالستار ایدھی کو اپنے علاج کی نہیں ان غریب، مسکین، یتیم ، بے سہارا اور لاوارث افراد کی فکرتھی جو ان کے ایدھی سنٹر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928ء کو بھارت کی ریاست گجرات کے قصبے بانٹوامیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبدالشکور ایدھی اور والدہ کا نام غربا بی بی تھا۔ 1947ء میں پاکستان آ گئے۔ پاکستان وہ تعلیم حاصل نہ کر سکے مگر انہوںنے زندگی کی تعلیم حاصل کرنے میں کمال حاصل کیا۔ عبدالستار ایدھی نے 1950 ء میں اپنی برادری (میمن) کے بعض ارکان حاجی عثمان عبدالغنی ایدھی، حسین عبدال دھامیا، عبدالستار بورا وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک خدمت کمیٹی بنائی، جس نے ایک خیراتی شفاخانہ قائم کیا جس کے تمام اخراجات حاجی عثمان نے ادا کئے۔ عبدالستار ایدھی نے جذبہ خدمت کو جاری رکھتے ہوئے 1972ء میں ’’ عبدالستار ایدھی ٹرسٹ ‘‘ قائم کیا ، شب و روز محنت، انسانی خدمت کے جذبے سے وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتے رہے۔ سہراب گوٹھ کراچی کے قریب ’’ اپنا گھر ‘‘ کے نام سے کام کو آگے بڑھایا۔ زیادہ تر بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کی خدمت کا کام تھا اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ رفیقہ حیات ہونی چاہیے۔ مولانا کے نرسنگ ہوم میں چھ خواتین بطور نرس کام کرتی تھی۔ایک رشتہ دار بلقیس نے پیش کش قبول کر لی۔ شادی کے پہلے ہی دن دولہا اور دولہن کو ایک شدید زخمی کو ہسپتال لے جانا پڑا سارا دن اور ساری رات اس کی دیکھ بھال پر صرف ہوا، گویا سہاگ بھی خدمت رات ٹھہری۔ ’’ایدھی فائونڈیشن ‘‘ کی جانب سے لاکھوں بے سہارا لوگوں کو ٹھکانا ملا ۔ ہزاروں بچوں کو گود لینے کا اہتمام کیا گیا۔ ہزاروںمنشیات کے عادی نوجوانوں کو علاج معالج سے تندرست کیا گیا، ہزاروں بے سہارا خواتین کی آباد کاری کا انتظام کیا گیا ۔ کوئی حاجت مند آج تک ایدھی فائونڈیشن کے دروازے اور ’’ اپنا گھر ‘‘ کی دہلیز سے مایوس نہیں لوٹا۔ جو کام قریباً نصف صدی پہلے ایک معمولی شامیانے تلے چھوٹے سے دواخانے اور ایک شکستہ پک اپ کو بنائی ہوئی ایمبولینس سے شروع ہوا تھا وہ اربوں روپے کے تک جا پہنچا ہے جس کی ایک ایک پائی محض عوام کے چندے سے وصول کی جاتی ہے اس وقت پورے ملک میں سینکڑوں نئی ایمبولینس چوبیس گھنٹے خدمت پر تیار رہتی ہیں۔ بے گھروں کے لیے متعدد ’’ اپنا گھر ‘‘ ہیں، سہراب گوٹھ میں ایک پورا ہسپتال ہے، کھارا در، کراچی میں بیرونی مریضوں کے لیے شفاخانہ ہے، ایمر جنسی سنٹر ہے جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ منصوبہ بندی کا کلینک ہے۔ جدید لیبارٹری ہے۔ نرسنگ تربیتی مرکز ہے۔ انسداد منشیات کا سنٹر ہے۔ پورے ملک کی شاہرائوںپر ہر سو میل کے فاصلے پر ایدھی ایمر جنسی سنٹر ہیں ملک کے تقریبا ’’ تمام شہروں میں ایدھی فلاحی مرکز ہیں۔ آپ اگرچہ کسی انعام و اعزاز کے محتاج نہیں۔ اس کے باوجود ان کو پوری دنیا سے بہت اعزازات ملے ۔ مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز کروڑوں انسانوں کے دل میں محبت ہے، یہ بھی حقیقت ہے وہ انسان ہیں، یہ بھی درست ہے کہ ان پر الزام بھی آئے، قطع نظر اس کے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آکاش کی طرح ایدھی اتنا بڑا انسان تھے ۔ عالمی سروے میں ایدھی ایمبولینس سروس آف پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ سروس تسلیم کیا گیا ہے، 500 سے زائد ایمبولینس گاڑیاں ، 300 امدادی کیمپ، 3 ائر ایمبولینس، 24 ہسپتال، دار الامان فری شفا خانے اس میں شامل ہیں ، ماہانہ لاکھوں ضرورت مندوں کو سروسز مہیا کی جاتیں ہیں، ماہانہ بجٹ 5 ملین ڈالر سے زائد ہے۔عظیم خدمات پر 22 ستمبر 2010ء کو برطانیہ کی بریڈ فورڈ شائر یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطاء کی۔ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کرنے والے بہت ہیں مگر ان میں سے اکثر ڈگریوں کی حیثیت محض ان کی یونیورسٹی فیسوں کی رسیدوں سے زیادہ نہیں، عبدالستار ان پڑھ سہی، ان کو ڈگری دینے و الوں نے اپنے ادارے کی توقیر بڑھائی، انسان کے پاس ڈگریاں ہوں مگر اس کے اندر کا انسان جاہل ہو تو پھر ڈگریوں کا فائدہ نہیں۔ بہر حال یہ سچ ہے کہ انسانیت کا تعلق علم سے زیادہ سوچ کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں فوجی اعزازات کے علاوہ 21 اعزازات ایسے ہیں جنہیں شہری اعزازات کا نام دیا جاتا ہے ، ان میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کاکردگی بھی شامل ہے۔ عبدالستار ایدھی کے اعزازات کی میں نے لسٹ دیکھی جو بہت طویل ہے مگر ان میں سے ایک آدھ پاکستانی تھا باقی سب غیر ملکی تھے ۔ طوفان ہو یا زلزلہ، جنگ ہو یا حادثہ، پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی کونا، کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں انسانیت کو ضرورت ہو اور عبدالستار ایدھی نہ پہنچے ہوں ، ہر زخمی ، ہر بیمار اور ہر لاچار کی مدد کا جذبہ ان کے خون میں شامل تھا، یہ جذبہ ہر ایک میں نہیں بلکہ کروڑوں میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ روز روز نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔