مرحوم عبدالقادر حسن‘ کالم نگاروں کے گھرانے کے بڑے تھے۔ کالم نگاری جس مشکل میں آج موجود ہے‘ وہ اس کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت پرنٹ میڈیا میں کالم نگاری اور اچھے کالم نگاروں کی حیثیت بہت بنیادی ہے۔ اخبار سے وابستہ اچھے کالم نگار باقاعدہ اخبار کی سرکویشن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سیاسی حالات پر تبصرے اور تجزیے‘ مختلف زاویوں سے سیاست اور سماج کو پرکھنے اور جانچنے پر مبنی تحریریں قارئین شوق سے پڑھتے ہیں۔ کالم نگاری آغاز میں ادبی اور مزاح پر مبنی تحریروں پر مشتمل تھی۔ عبدالقادر حسن اس قبیلے سے ہیں جنہوں نے کالم نگاری کو وہ سمت عطا کی کہ یہ صنف قارئین میں بے حد مقبول بھی ہوئی‘ سیاسی اور سماجی حوالوں سے عوام کے شعور کو جلد بخشنے کا وسیلہ بھی بنی۔ میری نسل سے تعلق رکھنے والے کالم نگاروں نے بلاشبہ جن کی تحریریں پڑھ کر لکھنا سیکھا‘ عبدالقادر حسن ان میں سے ایک ہیں اور کالم نگاروں کے گھرانے کے ایک بزرگ کی وفات پر کالم لکھنا ان کے شاندار صحافتی سفر کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری تھا مگر میں بروقت عبدالقادر حسن مرحوم کے حوالے سے کالم لکھ کر ان کی وفات پر پرسا نہ دے سکی۔ خاندان میں ہونے والی ایک وفات کی تعزیت پر مجھے ٹیکسلا جانا پڑا سو یہ کالم مؤخر ہو گیا۔ لکھاری سے قاری کا بھی عجیب رشتہ ہوتا ہے جو اس کی تحریر کے توسط سے قائم استوار ہوتا ہے اور غیر سیاسی باتیں لکھنے والے ممتاز صحافی‘ کالم نگار سے ہمارا یہ تعلق زمانہ طالب علمی سے قائم ہوا۔ جب اخبار پڑھنے خصوصاً ادارتی صفحہ پڑھنے کا چسکا لگا۔ کالم کی صنف ہمیشہ سے مختصر اور موثر تحریر کے زمرے میں آتی ہے اور مجھے ہمیشہ سے ہی شارٹ اینڈ کرسپ تحریریں زیادہ پسندیدہ رہی ہیں۔ سو اس زمانے میں سکول کالج سے آ کر غیرسیاسی باتیں پڑھنا ایک روٹین کا حصہ تھا۔ یوں غیر محسوس طریقے سے پڑھتے پڑھتے ہم سیکھتے بھی رہے کہ بڑی بڑی سچائیاں‘ حقیقتیں اورباتیں‘ مختصر پیرائے میں کیسے لکھنی ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر میں جن کالموں اور کالم نگاروں کا بہت تذکرہ ہوا کرتا تھا ان میں سے عبدالقادر بھی شامل تھے۔ ان کے کالم کا لوگو دیکھنے میں بھی منفرد لگا کرتا۔ چہرے پر فکر و دانش کی گہری پرچھائیں مگر چشم خوش خواب‘ عینک کے گہرے رنگ کے پیچھے پوشیدہ۔ کالم کے ساتھ تصویر کا یہ انداز ان کی انفرادیت تھی۔ عبدالقادر حسن کے ہم عصروں نے ان کو پرخوب لکھا‘ ان کی ذہنی آبیاری اور شخصیت سازی کن حالات میں ہوتی ایک طرف مولانا مودودی کی فکر کا اثر اور دوسری طرف صحافت کا آغاز بھی فیض احمد فیض جیسے ترقی پسند شاعر کی سرپرستی میں کیا۔ معتدل مزاجی‘ برداشت او رکشادہ دلی ان کی تحریر سے بھی پھوٹتی تھی۔ کالم نگاری بنیادی طور پر حالات حاضرہ پر تبصرہ اور تجزیہ ہی تو ہے اور حالات حاضرہ پر اس سے بہتر تبصرہ ممکن نہیں کہ ’’حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔‘‘ میں تو یہ کہوں گی کہ سال نہیں‘ کئی دہائیاں ہو گئی ہیں۔ حالات حاضرہ کو اور کالم نگار جسے اسی پر لکھنا ہوتا ہے کبھی کبھی وہ اس کام سے اکتانے لگتا ہے یا پھر مجھے لفظ اکتانے کی بجائے لکھنا چاہیے تھا کہ کبھی کبھی لکھنے والا حالات کی صورت دیکھ کر مایوس سا ہو جاتا ہے کہ اس کے لکھے ہوئے الفاظ صدا بصحراثابت ہورہے ہیں۔ سالہا سال عوال کے وہی مسائل ہیں‘ غریب کی وہی صورت حال ہے۔ مظلوم اسی طرح انصاف کے لیے مارا مارا پھرتا ہے۔ پھر کبھی سچ کہنے پر ایسی قدغنیں ہیں کہ پورا سچ تو کیا آدھا سچ بھی اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ کالم نگاری بھی کیا سرگرمی ہے کہ تاریخ کی رہ گزر پر بیٹھ کر بے حس اور مفاد پرست حکمرانوں‘ سیاستدانوں کا ماتم کئے جائیں۔ زمینی حقائق سے نوری سال کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے پالیسیاں بناتے‘ پالیسی میکروں کی جہالت کارونا روتے جائیں مگر حالات بدلنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ خواب دیکھیں‘ امید باندھیں‘ حسن ظن سے کام لیں مگر پھر خواب عذاب میں بدلتے ہوئے دیکھنا پڑیں۔ ناامیدی کی فصل کاٹنی پڑے۔ تلخ حقیقتیں خوش فہمیوں کا منہ چڑاتی ہوں مگر قلم رواں رکھنا پڑے‘ قاری سے حرف کا رشتہ برقرار رکھنے کو لکھتے رہنا ہو ،ٹھیک ہے روزگار بھی اس سے جڑا ہے۔ کالم نگاری کے ساتھ اب بریڈ اینڈ بٹر والی مجبوری بھی تھی۔ اسی میں ہمارا سروائیو ل ہو اور پھر رب نے ہاتھ میں قلم دیا ہو تو اس کی ذمہ داری کو نبھانا عین عبادت بھی ہے۔ میں جب عبدالقادر حسن‘ منٹو بھائی جیسے عظیم کالم نگاروں کو دیکھتی ہوں کہ جو زندگی کے آخری سانس تک لکھنے کی اس کمٹمنٹ کو نبھاتے۔ معاشرے کو ہمت‘ امید‘ خواب اور ڈھارس دینے کے اس مسلسل سفر میں منتقل مزاح رہے۔ ڈگمگائے نہیں تو میں دل سے انہیں سلام پیش کرتی ہوں۔ یہ عظیم لکھاری معاشرے کے بے کسوں‘ غریبوں اور پسے ہوئے طبقات کے لیے سوچتے رہے‘ کڑھتے رہے‘ لکھتے رہے‘ ایک خوب صورت اور انصاف پسند سماج کا خواب دیکھتے رہے۔ میں سید قاسم محمود کے لازوال الفاظ کو دہرائوں گی جن کو پڑھ کر ہمیشہ میرے دل کو ڈھارس ملتی ہے کہ سید قاسم محمود نے کہا کہ ’’کالم نگار کے اندر سے ایک ماں کا دل ہوتا ہے اس لیے کہ وہ ساری دنیا میں سکھ بانٹنا چاہتا ہے۔‘‘ میرے گھرانے کے بزرگ عبدالقادر حسن بھی ایک ماں کا دل سماج کے دکھ محسوس کرتے رہے‘ لکھتے‘ مسلسل لکھتے رہے۔ وہ صحافت میں طویل اننگ کامیابی سے کھیل کر پویلین واپس لوٹ گئے ہیں۔ اللہ کریم ان کی روح کو اپنی رحمتوں کے حصار میں آسودہ رکھے۔ آمین۔