تخلص اگرچہ انہوں نے ’’مجرم ‘‘رکھاہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جرائم کے خلاف قلمی جہاد ان کی زندگی کا بنیادی فریضہ رہاہے۔مجرم تخلص کاانتخاب شاید انہوں نے اس دور کے لوگوں کالحاظ کرکے کیاہے کیونکہ یہاں پر حرفِ حق لکھنے اور کہنے والے لوگ ہی مجرم تصورکیے جاتے ہیں۔ جی ہاں میں عبدالقادر مجرم کی بات کررہاہوںجنہوں نے بڑی محرومی کے عالَم میں قلم وکتاب سے ایک مضبوط رشتہ استوارکررکھاہے۔ یہ محرومی ان کے وہ ہاتھ ہیں جس سے وہ اٹھارہ سال پہلے ایک حادثے کے نتیجے میں محروم ہوچکے تھے۔دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے کے باوجود عبدالقادر مجرم اتنے باہمت ثابت ہوئے ہیں کہ اب تک پشتون زبان وادب کے میدان میں ان کی چودہ کتابیں منظر عام پرآچکی ہیں۔ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بلوچستان جیسے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں دنیابہت کم ایسے باکمال لوگوں پر اپنی نظریں جمالیتی ہے۔مجرم نے پچپن سال پہلے 1964ء کوبلوچستان کے پشتون علاقے ضلع قلعہ سیف اللہ کے حسن زئی گاوں میں حاجی محمدجان میرزئی کے ہاں آنکھ کھولی ۔ غربت اور کسمپرسی کے ماحول میں اپنے علاقے ہی کے ایک مڈل اسکول سے آٹھویں جماعت تک مستقل تعلیم حاصل کی تاہم میٹرک کا امتحان انہوں نے وہاں کے ایک اسکول سے پرائیوٹ پاس کیا۔ آب ودانہ ڈھونڈنے کیلئے نکلے، تو واپڈا کے رسکی محکمے میں لائن مین کے طورپر ملازمت اختیار کی۔ سولہ برس تک وہ اس محکمے سے منسلک رہے لیکن بدقسمتی سے نئی صدی کاپہلا سال ان کیلئے بڑا بدقسمت سال ثابت ہوا۔ کیونکہ اسی سال بجلی کے ٹرانسفارمر کی مرمت کے دوران کرنٹ کاایک زوردار جھٹکا لگنے سے وہ بری طرح گھائل ہوئے ۔ اس حادثے میںان کی جان تو بچ گئی تاہم ڈاکٹروں کوان کے دونوں متاثرہ ہاتھ کاٹنے پڑے یوں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس نعمت سے محروم ہوگئے۔مجرم سے میری پہلی ملاقات غالباً چودہ برس پہلے قلعہ سیف اللہ میں ہونے والے ایک پشتو مشاعرے میں ہوئی ۔ ہاتھوں سے محروم اس باہمت انسان کے بارے میں اسی وقت بھی مجھے یہ جانکاری ہوئی کہ موصوف ایک اچھے شاعر اور لکھاری بھی ہیں۔ بعد میں رفتہ رفتہ اُن کی ادبی کاوشیں اتنی عروج پر پہنچ گئیں کہ وہ باقاعدہ طور پرصاحب کتاب شاعر بن کرابھرے ۔ ’’ٹوٹے ہوئے بازو‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ تھا جس میں مجرم نے خود سے پیش آنے والے حادثے کے بعد کی شاعری شامل کی ہے ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ان کی شاعری کی دوسری کتاب ’’زندگی اور امیدیں‘‘ کے نام سے بھی مارکیٹ میں آگئی ۔بہترین شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ عبدالقادر مجرم قصہ نویسی Fiction))کے میدان میں بھی وارد ہوئے اوربہت کم عرصے میں خود کو کمال کا ناول نگار اور افسانہ نویس بھی ثابت کیا ۔فکشن میں پہلے ان کے افسانوںکا مجموعہ ’’انہوں نے ایساکیوں کیا‘‘ شائع ہوا اور پھر بعد میں وہ مسلسل ناول لکھنے میں طبع آزمائی کرتے آئے ہیں۔تین شعری مجموعوں اور ایک افسانوی مجموعے کے علاوہ اب تک عبدالقادر مجرم کے دس پشتو ناول کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ذیل میں مجرم کے چند مشہور ناولوں کے نام دیئے جاتے ہیں ۔ ’’کشادہ راستہ ہے کوئی آجائیگا۔وہ قبرستان نہیں رکھتے ہیں۔مجمع دیوانہ ہے ۔دل اچک لیتے ہیں ۔مقدس عہدے،گوشن آراء اور مُلا بشر‘‘ہیں۔عبدالقادرمجرم کا کمال یہ ہے کہ اتنی بڑی کرب سے گزرنے کے باوجود بھی ان کی ہمت اور اعصاب نے جواب نہیں دیاہے۔ ایک انٹرویو کے دوران پوچھے گئے سوال کاجواب دیتے ہوئے ان کاکہنا ہے کہ’’ مذکورہ حادثے کے بعد جب وہ لوگوں سے ملتے تھے تو لوگ ان کی حالت پر کف افسوس مَلتے اور اُف کرتے تھے، جس سے ان کو بڑا دکھ ہوتاتھا۔ ان کے مطابق لوگ ان کا ڈھارس بندھانے کی بجائے انہیں قابل رحم اور معذورتصورکرتے تھے حالانکہ وہ ہاتھوں سے محروم رہنے کے باوجود خود کو کام کا آدمی سمجھتے ہیں‘‘۔پشتو ادب میں بیش بہا خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ مجرم نے خود کو درس وتدریس کے شعبے سے بھی وابستہ کیے رکھا۔اپنے گاوں میں بچوں کو پڑھانے کیلئے انہوں نے باقاعدہ طورپرایک پرائیوٹ اسکول بھی کھولاجہاں پروہ مسلسل چارسال تک بچوں کو پشتو گرائمر اور بنیادی قواعد پڑھاتے رہے ۔ہاتھوں کی نعمت سے محرومی کے ابتدائی زمانے میں وہ اپنی شاعری کو کاغذ پر منتقل کرنے کیلئے یاتواپنے کٹے ہوئے ہاتھ سے قلم باندھ کر لکھتے یا پھر دوسروں کا سہارا لیاکرتے تھے لیکن آج کل وہ لکھتے وقت بھی اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ پائوں کی انگلیوں کے ذریعے مجرم نے کمپیوٹر سے کمال کی ٹائپنگ اور کمپوزنگ کرنا سیکھ لی ہے۔اپنی کتابیں تو بہرحال وہ خود ٹائپ کرتے ہیں لیکن لطف کی بات یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں وہ دوسروں کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ اب تک اپنے پائوں کی انگلیوں کی مدد سے وہ پچاس کتابیں کمپوزکرچکے ہیں جن میں چودہ کتابیں ان کی اپنی جبکہ باقی چھتیس کتابیں اپنے دوستوں کی شامل ہیں۔اور اس پر مستزاد یہ کہ کتابیں کمپوزکرنے پر مجرم اپنے ساتھیوں سے اس کامعاوضہ بھی نہیں لیتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنی قوم کی خدمت سمجھتے ہیں۔عبدالقادر مجرم کی تین کتابوں کوبلوچستان کے سیاحت وثقافت کے محکمے کی طرف سے تین ایوارڈ بھی ملے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ گورنربلوچستان کی طرف بھی اپنے قابل قدر خدمات کے اعزاز میں انہیں ایکسلینسی ایوارڈ سے نوازاگیاہے۔ عبدالقادر مجرم قلعہ سیف اللہ میں ادبی تنظیم پشتو ادبی یُون سے منسلک ہیں اور تنظیم کی ہرادبی نشست میں وہ باقاعدگی سے شرکت بھی کرتے ہیں۔وہ اس وقت تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کاباپ ہیںاوران کی معاشی حالت پہلے کی بہ نسبت کافی بہتر ہے اپنی شاعری اور اپنے ناولوں کے ذریعے معاشرے میں امن وآشتی اور محبتوں کاپرچار کرنے والے اس باہمت انسان سے جب ان کی آرزو کے بارے میں سوال کیا گیاتو ان کا کہناتھا کہ ’’اپنے گاوں میں ایک اچھے تعلیمی ادارے اور ایک ضخیم لائبریری کی تعمیراُن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے ‘‘۔