خوش رو‘ خوش پوش‘ سنجیدہ اور باوقار عبدالقیوم سے دوستی‘ رفاقت ‘رشتے داری‘ جس میں 56 برس سے کوئی وقفہ آیا‘ رخنہ پڑا نہ اونچ نیچ دیکھی‘ بڑی آہستگی اور سہولت سے چوتھی نسل میں منتقل ہو چکا‘سوموار3مئی 21 رمضان المبارک کو اچانک ایک بے رنگ پر دہ حائل ہو گیا ہے‘جس میں پردے کے ادھر ہم سب رہ گئے اور دوسری طرف وہ اکیلا چلا گیا‘ کہاں؟ جہاں سے کوئی لوٹ کے واپس نہیں آتا مگر جدائی کا یہ وقفہ دائمی ہے نہ ابدی پھر بھی اتنا تکلیف دہ کہ سب کے دلوں کو درد و غم سے بھر دیا ہے۔ بے شک عبدالقیوم پلٹ کے واپس نہیں آئے گا مگر ادھر رہ جانے والے ہم سب ایک ایک کر کے اس سے ملاقاتی ہونگے۔ کب؟یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر اٹھ کے یہاں سے جو کوئی اس کی محفل میں گیا پھر اسی کا ہو رہے گا۔اس دنیا میں سجی محفلوں کی رونقیں مستقل اور پائیداریوں آسودہ رکھیں گی کہ کوئی پلٹ آنے کی خواہش کرے گا نہ آرزو پا لے گا۔ کیا واقعی وہاں بھی کوئی محفل سجی ہے؟دوست‘احباب‘ رشتہ دار اکٹھے ہیں اور خوش بھی؟ہماری دنیا والوں کو اس کی کوئی خبر نہ تھی کیونکہ وہاں سے واپس نہیں آیا کہ اس دنیا کا کچھ حال کہے اور کیفیت بیان ہو مگر: جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں ہمارے پیارے رہبر کامل اور اللہ کی طرف سے آئے پیغامبر حضرت محمدؐ اس دنیا کے آخری دن مرض الموت میں تھے تو ان کی پیاری بیٹی جو جنت میں عورتوں کی سردار مقرر ہیں ،آپؐ کی مزاج پرسی کو تشریف لائیں اور آپؐ کے چہرے پر اس دنیا سے رخصتی کے آثار دیکھ کر بے تحاشہ‘ بے ساختہ روپڑیں‘ تو اس حالت میں بھی مہربان باپؐ سے بیٹی کا غم دیکھا نہ گیا تو اشارے سے اپنی لخت جگر کو اپنے پاس بلایا اور بیٹی کے کان میں سرگوشی کی جسے سن کر وہ خوش ہوئیں اور بے ساختہ مسکرانے لگیں‘ آپؐ کے وصال کے بعد حضرت عائشہؓنے حضرت فاطمہؓسے پوچھا کہ وہ راز کیا تھا کہ حضرتؐ کے جاتے قدموں کی آہٹ پا کر بھی آپؓ مسکرانے لگی تھیں تب حضرت فاطمہؓ نے کہا’ آپؐ نے انہیں خوش خبری دی کہ آپؐ کے وصال کے بعد خاندان بھر میں فاطمہؓ بیٹی سب سے پہلے آپؐ سے آن ملیں گی‘ بس یہی خوش خبری تھی جسے پا کر میں مسکرانے لگی تھی اور واقعی حضرت فاطمہؓ چھ ماہ کے اندر اور سب سے پہلے اس جہاں سے رخصت ہوئیں۔حضرت فاطمہؓ کے کان میں سرگوشی کی گئی اس حدیث میں ہمارے لئے بہت کچھ ہے‘میڈیکل سائنس اور جدید مشاہدہ و تحقیق جس کی تصدیق کرتی جا رہی ہے اور جلد ہی ہم سب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہمارے اجداد‘ دوست اور احباب جو پہلے رخصت ہوئے‘ پردے کے اس طرف ہمارے منتظر ہوں گے! ہم دوست‘ احباب‘ بہن بھائی جن سن و سال میں جی رہے ہیں‘ ہمارے احباب کی تعداد اس دنیا سے گزر دوسری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے‘یہاں ہماری نئی نسل(ذریت) کشش کرتی ہے تو ادھر اجداد کی محبت بھی ہے جو اپنی طرف کھینچتی ہے‘ کیا کیا رشتے‘ ناطے‘ دوستیاں اور شخصیات جن سے ملاقات کی آرزو حسرت بن کر ہمارے دلوں میں ہے‘ جنہیں ہم زمانے‘ فاصلے اور سن و سال کے فرق سے پا نہ سکے ان سب کو روبرو دیکھیں گے باتیں ہونگی اور ان کی محفلوں سے مشرف ہونگے اور پھر کبھی نہ بچھڑنے کے لئے اور وہ جو ہمارے پیچھے رہ جائیں گے‘ان سے دوبارہ ملنے کو آخر دن ہی کتنے ہیں؟سب آئیں گے ایک ایک کر کے وہیں سب سے ملاقات ہو گی نہ اکتانے‘ نہ تھکانے والی ملاقات ہر آن نیا جلوہ‘ لطف اور جوش و خروش۔ یار دیرینہ عبدالقیوم سے پہلی ملاقات پچاس اوپر چھ سال پہلے رحیم یار خاں کے تعمیر ملت ہائی سکول میں ہوئی۔ سرگودھا کے گائوں بیالیس(42) جنوبی سے چل کر ہم اپنے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کے پاس چلے آئے تھے۔ہمارے خالہ زاد بھائی ہارون الرشید پہلے ہی اس سکول میں زیر تعلیم تھے۔راقم 1964ء میں ساتویں جماعت اور چھوٹے بھائی میاں مشتاق چھٹی میں داخل ہوئے۔اگلے سال رحیم یار خاں کی تحصیل صادق آباد کے گائوں 148سے دو بھائی تعمیر ملت سکول میں آئے۔ بڑے بھائی محمد شفیق میرے ہم جماعت اور چھوٹے بھائی عبدالقیوم مشتاق کے ساتھ ہم جماعت بنے‘ہارون الرشید کے بھائی امین بھی اسی جماعت میں ان کے ہمراہ تھے‘ اس دن سے شروع ہونے والی ملاقات‘ میٹرک کے بعد ہمیں لائل پور میں گورنمنٹ کالج لے آئی۔ کالج سے فارغ ہو کر شفیق صاحب غلہ منڈی میں کاروبار سنبھالنے چلے گئے۔ پھرسیاست‘ سیاست کے ذریعے شہباز شریف کابینہ میں وزیر بنے اور آج کل بطور ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب حزب اختلاف کا حصہ ہیں۔ عبدالقیوم ‘ مشتاق اور امین ہمارے پیچھے پنجاب یونیورسٹی چلے آئے اور تینوں دوست اور ہم جماعت پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل 14سے ہوتے ہوئے امریکہ پہنچ گئے۔ امین صاحب اور میاں مشتاق امریکہ میں ہیں لیکن قیوم صاحب کو لندن اور نیو یارک لبھا نہیں سکے اور وہ لوٹ کر صادق آباد آن پہنچے‘اس عرصہ میں شفیق صاحب کی شادی ہماری بہن سے ہو گئی اور دوستی رشتہ داری میں بدل گئی۔ اب یہ رشتہ داری کئی نئے رشتوں سے منسلک ہو چکی ہے۔ عبدالقیوم کی دلہن رحیم یار خاں کے سابق میئر اور ایم این اے میاں عبدالخالق کی بھانجی ہیں۔اس عاجز کے ایما پر یہ رشتہ دونوں طرف سے منظور اور مقبول ہوا۔ ہمارا گھرانہ لائل پور‘لاہور‘ لندن ‘ امریکہ جہاں بھی گیا‘ ان کا زیادہ سفر اور قیام صادق آباد اور رحیم یار خاں کی طرف تھا اور رشتہ داریاں بھی جو گزرتے دنوں کے ساتھ روز افزوں ہیں۔ عبدالقیوم کے ساتھ تعمیر ملت میں پہلی ملاقات ہوئی تو اس دبلے پتلے چھریرے بدن‘ بھوری آنکھیں کھڑی ناک‘ گورا رنگ‘ پرکشش خط وخال کے ساتھ لڑکپن باقی تھا، جوانی کے آثار قریب ہی تھے۔ 56برس کے بعد 3مئی 21رمضان المبارک کو دم رخصت پرکشش‘ پرنور چہرہ‘ خوبصورت موزوں سفید براق داڑھی‘چمکتی ہوئی بھوری آنکھیں اب بھی پہلے دن کی طرح روشن اور بھر پور تھیں‘ خوش رو‘ خوش لباس وہ ہمیشہ سے تھا‘ متانت اور سنجیدگی نے اسے بارعب بنا دیا تھا۔ محفل میں اگر وہ خاموش رہتے مگر ان کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کم سخن مگر صاف گو‘ پنچایت میں انصاف کا ترازو جھک نہیں سکتا تھا۔دوست کے گزر جانے کی خبر سن کر ہمارے بھائی اور قیوم کے دوست میاں مشتاق نے امریکہ سے فون کیا اور کہا‘ میں آپ کو اک خواب سنائوں؟ ہاں !کیوں نہیں‘مگر یہ خواب میرا نہیں عبدالقیوم کا ہے‘ جو اس نے لگ بھگ بیس برس پہلے دیکھا اور مجھے سنایا تھا۔ تب اس کی چار چھوٹی بچیاں تھیں‘بیٹا ابھی پیدا نہیں ہوا تھا‘ اس نے بتایا کہ رات میں سویا ہوا تھا ۔خواب میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا‘ ہمارے ساتھ چلو ہم تمہیں لینے آئے ہیں‘ میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ موت کے فرشتے ہیں‘تب ان سے عرض کیا کہ میری چار چھوٹی بیٹیاں ہیں‘میرے بعد ان کا کیا ہو گا؟ان کی تعلیم‘تربیت‘ شادیاں بھی تو کرنی ہیں‘مجھے مہلت دی جائے کہ میں ان فرائض سے سبکدوش ہو جائوں‘ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دھیمی آواز میں کچھ مشورہ کیا‘ جسے میں سن نہیں سکتا تھا‘ اس کے بعد وہ واپس مڑے اور چلے گئے‘ گویا انہوں نے میری درخواست قبول کر لی۔ خواب سنانے کے بعد مشتاق صاحب نے کہا‘ میں ہر دن قیوم کی بیماری پر مضطرب رہا۔روزانہ فون کر کے بیمار پرسی کی‘ جب وہ ہسپتال داخل کر دیا گیااور سانس لینے میں دشواری ہوئی اور آکسیجن دی جانے لگی۔ اگرچہ وہ اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ بات چیت کرتا ہوا سب کے سامنے لیٹے مسکراتا ہوا مگر وہ خواب میری یادداشت میں اچانک ابھر آیا۔ خواب کا یہ نکتہ مجھے بے چین کرتا تھا کہ اس نے فرشتوں سے جو مہلت طلب کی اس میں چار بچیوں کی شادیوں کا حوالہ تھا مگر بیٹے کا کوئی ذکر نہ تھا۔ اس لئے کہ بیٹا اس وقت تک تھا ہی نہیں‘اب بیٹے کی منگنی کر دی گئی ہے‘ شادی دسمبر میں ہونا قرار پائی ہے‘ مجوزہ شادی کا دی گئی مہلت میں کوئی ذکر نہیں اور وہ مہلت آج ختم ہو گئی‘بیٹے کی شادی دیکھنا نصیب نہ تھا!