آج سے ٹھیک 42سال پہلے رات 2بج کر 2منٹ پر پاکستان کے سب سے طاقتور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اس وقت کے فوجی حکمران ضیاء الحق نے ہر قسم کے دباؤ اور رحم کی درخواستوں کے باوجود تختۂ دار پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ڈیوس روڈ پر اپنے بھائی مشتاق کے دفتر ’’ڈان ٹریولز ‘‘میں تھا جہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک دوست تین چار دیہاتیوں کے ساتھ تشریف لائے، معلوم ہوا کہ یہ ایف ایس ایف کے چار اہلکاروں میں سے دو کے قریبی رشتہ دار ہیں جو نواب احمد خان قصوری کے قتل میں بھٹو کے شریک مجرم ہیں۔ ان میں ایک رانا افتخار ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں کے نمبردار کا بیٹا تھا جو پی پی پی سے تعلق رکھتے تھے،ان کا کہنا تھا کہ چوہدری ظہور الٰہی نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر وہ سچ کے ساتھ اقرار جرم کریں تو ان کے لیے سزائے موت کی معافی کا ذمہ لیتا ہوں لیکن ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سے اپیل خارج ہوگئی تو ہمارے عزیزوں کو بھی پھانسی چڑھادیا جائے گا۔میں انہیں ڈاکٹر بشارت الٰہی کے پاس لے گیا ، انہوں نے ان کی بات سنی اور یقین دلایا کہ ہم ضرور صدر پاکستان ضیاء الحق سے بات کریں گے۔ چنانچہ ہم دونوں راولپنڈی پہنچے۔ ڈاکٹر بشارت الٰہی کی موجودگی میں آرمی ہاؤس جانے کے لیے کسی پیشگی اطلاع یا اجازت کی ضرورت نہیں تھی، رات کو جنرل صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا میاں طفیل محمد نے بھی اس بارے کہا تھا ، میاں صاحب سے میں نے عرض کیا کہ اگر بھٹو جس نے قتل کا حکم دیا اسے کوئی سزا دی جاتی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو لوگ براہِ راست قتل کرنے والے ہیں ان سے کوئی رعایت برتی جائے۔ یہ حساس اور اہم مسئلہ ہے ، پوری دنیا کی نظریں لگی ہیں جو ہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔ انہوں نے کسی کے ساتھ سزا میں معافی کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ یہ وہی بھٹو ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں وہ واحد شخص ہے جو ہر غلطی سے پاک ہے۔ ‘‘ان کے اصل لفظوں میں ’’I am the only sacred cow in Pakistan‘‘۔ ایوب خان کے دور حکومت میں 65ء کی جنگ کے بعد پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے دفتر خارجہ کو رپورٹ بھجوائی اس میں بھٹو کے بارے لکھا تھا ’’He was born to be hanged‘‘ ۔ اس کے کہے جملے ٹھیک 14برس بعد حرف بحرف سچ ثابت ہوئے۔ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال جو بھٹو کے سیاسی حریف اور ناقد ہونے کے باوجود ان کے گہرے دوست تھے ، انہوں نے راقم اور حاجی اسلم کے ساتھ ایک ملاقات میں ہمیں 4 اپریل 1979ء صبح کے بارے میں اپنا خواب سنایا جو انہوں نے اپنی ’’بائیوگرافی ‘‘ میں بھی نقل کیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ میں خود بھی نہیں جانتا کیا میں جاگ رہا تھا یا سویا ہوا تھا۔ رات 2بج کر 2منٹ پر ایک زور دار دھماکے سے میرے بیڈ روم کا دروازہ کھلا، میں نے دیکھا سامنے بھٹو کھڑا تھا، خون آلود کپڑوں اور سوجھے ہوئے چہرے کے ساتھ، اس نے مجھے مخاطب ہوکر کہا دیکھو! انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا۔دروازے کے اوپر لگی گھڑی کی طرف نظر اٹھی تو صبح کے 2بج رہے تھے۔ مسٹر بھٹو کی اہلیہ اور ان کی بیٹی 3 اپریل 1979ء کو تین بجے سہ پہر تک ان کے پاس رہیں، شام کو ساڑھے 6بجے سپرنٹنڈنٹ جیل، ایک گواہ کے ہمراہ بھٹو کی کوٹھڑی میں گئے ، انہوں نے دیکھا کہ وہ فرش پر ایک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ چونکہ اگلی صبح انہیں پھانسی دے دی جائے گی ، کیا وہ آخری خواہش بتانا چاہیں گے یا آخری وصیت تحریر کروانا پسند کریںگے۔ مسٹر بھٹو نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ ذاتی طور پر خواہش اور وصیت لکھنا چاہتے ہیں چنانچہ انہیں لکھنے کے لیے ضروری سامان دے دیا گیا، مسٹر بھٹو نے شام 7بج کر 27منٹ پر کافی کا ایک کپ پیا اور شیو بنائی ، پھر رات کو 8بج کر 5منٹ پر کافی کا ایک اور کپ پیا ، اس کے بعد دفعۃً ان کی خود اعتمادی نے جواب دے دیا، انہوں نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بچوں کی طرح اونچی آواز میں رونے لگے،اس کے بعد 8بج کر 15منٹ سے 9بج کر 40منٹ شب تک وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کچھ لکھتے رہے، انہوں نے یہ عمل کئی بار دہرایا، 9بج کر 55منٹ پر دانتوں کو برش کیا ، اس کے بعد ان کی حرکات کچھ زیادہ ہی بے ربط ہوگئیں، 10بجے شب انہوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے سے اپنی کوٹھڑی کے فرش پر جھاڑو دینا شروع کردیا، پھر وہ بستر پر دراز ہوگئے اور 10بج کر 10منٹ سے 11بج کر 5منٹ شب تک پھر کچھ لکھتے رہے، انہوں نے ایک بار ہیڈ وارڈن سے دریافت کیا ، ان کی سزائے موت میں کتنا وقت باقی ہے، پھر انہوں نے کاغذات کو اکٹھا کیا اور جلایا ۔ ان کا چہرہ اتر گیا تھا اور وہ بستر پر دراز ہوگئے، آنکھیں موند لیں ، یوں لگا جیسے وہ سو رہے ہو۔ 11بج کر 59منٹ پر سپرنٹنڈنٹ جیل ان کے کوٹھڑی میں آئے ، آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا، انہوں نے ٹیلی فون پر سپرنٹنڈنٹ جیل کو اس بات سے آگاہ کیا جو تھوڑی دیر میں ڈاکٹر اور مجسٹریٹ بشیر خان کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے ، ڈاکٹر نے بھٹو کا معائنہ کیا اور کہا کہ وہ طبی لحاظ سے بالکل فٹ ہیں۔ وصیت کا پوچھنے پر انہوں نے آہستگی سے کہا ، وصیت تو کتابوں میں لکھی جائے گی۔ پھر 4اپریل کی صبح 1بج کر 45منٹ پر سپرنٹنڈنٹ جیل ایک مجسٹریٹ ،ڈاکٹر اور جیل کے دو اسٹریچر برداروں کے ساتھ کوٹھڑی میں داخل ہوئے ، انہوں نے دیکھا کہ بھٹو بستر پر بے حس وحرکت لیٹے ہوئے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ تختۂ دار تک خود چل کر جانا پسند کریں گے یا انہیں اٹھا کر وہاں تک لے جایا جائے۔ ان کا کوئی جواب نہ ملا، کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا ’’افسوس کہ میری اہلیہ بھی مجھے چھوڑ کر جیل سے چلی گئی‘‘۔سپرنٹنڈنٹ ایک بار پھر ان سے پوچھا کہ وہ چل کر جائیں گے یا انہیں اٹھاکر لے جایا جائے۔ جب جواب نہ ملا تو سپرنٹنڈنٹ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ مسٹر بھٹو کو اٹھالیں۔ چار آدمی انہیں اٹھاکر صحن میں لے آئے، انہیں اسٹریچر پر لٹادیا گیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئیے گئے، لگتا تھا مسٹر بھٹو اپنی کوٹھڑی سے تختہ ٔ دار تک چل کر جانے کے قابل نہ تھے، راستے میں انہوں نے کوئی بات نہ کی، پھانسی گھاٹ کے قریب اسٹریچر کو نیچے رکھ دیا گیا ،وہ کھڑے ہوگئے اور جیل سٹاف نے چند سیڑھیاں چڑھنے میں ان کی مدد کی۔ جب پھانسی کا پھندا ان کی گردن کے گرد کسا جارہا تھااور ان کے سر پر ٹوپی (Hood)چڑھائی جارہی تھی تو مسٹر بھٹو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ، ہٹاؤ اسے، ہٹاؤ اسے۔سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر ، مجسٹریٹ اور ڈیوٹی پر مامور چند دیگر افراد یہ آخری منظر دیکھتے ہوئے حیران اور ساکت کھڑے تھے، جوں ہی گھڑی نے 2بجائے ، لیور کھینچ دیا گیا، فوراً ہی تختے الگ ہوگئے اور مسٹر بھٹو دار پر لٹک گئے ، کچھ لمحوں کے بعد ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اعلان کردیا کہ مسٹر بھٹو کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے …خدا ان کی روح کو سکون دے۔