شاعر مشرق علامہ اقبال نے تقدیر کے قاضی کا فتویٰ یوں سنایا کہ ،ہے جرم ضعیفی کی سز ا مر گ مفاجات!۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو کمزور مگر محبت کی بے پناہ طاقت سے نوازا ہے ۔ مخلوق خدا سے محبت عورت کی کمزور بنی تو طاقتور مردوں نے صنف نازک کا استحصال شروع کردیا۔ ظلم تو یہ بھی ہوا کہ خود ظالم ہی مظلوم کا طرف دار بھی بن بیٹھا۔آج دنیا کے مہذب معاشروں میں جہاں حقوق نسواں کی دن رات دھائی دی جاتی ہے ان ممالک میںہی عورت سب سے زیادہ سماجی اور معاشی استحصال کی شکار ہے۔ مغرب میں عورت کے حصے میںآزادی کے نام پر محرومی آئی ہے۔ انہی محرومیوں کے سدباب کے لیے ہر سال 8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سال میں ایک دن خواتین کے حقوق کے پرچار کے لئے سیمینار اور واکس ہوتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود عورت استحصال کی چکی میں پستی چلی آ رہی ہے۔ عورت کی بے بسی کی تصویر کشی زہرا نگاہ نے ان الفاظ میں کی ہے: عورت کے خدا دو ہیں حقیقی اور مجازی پر اس کے لئے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا 2020ء میں اقوام متحدہ نے بیجنگ ڈیکلریشن اینڈ پلیٹ فارم فار ایکشن کی 52 ویں سالگرہ مناتے وقت اعلان کیا تھا کہ اس سال خواتین کے حقوق اور مساوات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی عورت ظلم اور بے انصافی کی شکار ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کی تو بات ہی چھوڑیے! دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عورت کو معاشرتی عدم مساوات اور جبر کا سامنا ہے۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی عورت کو معاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کینیڈا میں خواتین مرد کے ایک ڈالر کے مقابلے میں 84سینٹ کماتی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ اور کینیڈا میں بھی عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل کرنے کے لئے 95سال مزید درکار ہوں گے۔ خواتین اور مردوں کے درمیان مساوات کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 173ممالک میں سے 155ممالک میں کوئی نہ کوئی قانون ایسا موجود ہے جو خواتین کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے جس رفتار سے دنیا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کر رہی ہے اگر اسی رفتار سے چلتی رہی تو خواتین کو معاشی اور سماجی مساوات حاصل کرنے کیلئے 257 سال کا وقت درکار ہو گا۔ جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کے حوالے سے مساوات کا یہ عالم ہے تو پاکستان ایسے ترقی پذیر اور جاگیردارانہ سماج میں عورت کی زبوں حالی کا اندازہ لگانا ہی کیسے ممکن ہو سکتا۔ خواتین کے تحفظ کے لئے پاکستان نے جتنے بھی قانون بنائے گئے ان پر عملدرآمد کے فقدان اور حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے خواتین کے لئے آسانیاں پیدا ہونے کے بجائے مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں حقوق تحفظ نسواں کے علاوہ فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2015میں منظور ہوا تھا۔ حکومت نے اس ایکٹ کے تحت طلاق اور خلع کا عمل تو آسان کر دیا مگر خواتین کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے اقدامات پر توجہ نہ دی۔ پاکستان میں 23فیصد خواتین کو جو روزگار کے مواقع میسر ہیں ان میں بھی ناصرف خواتین کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے بلکہ خواتین کو ملازمت کی جگہ پر ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنسی ہراسانی کے حوالے سے حال ہی میں گورنمنٹ ہسپتالوں میں ایک سروے کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق 58 فیصد نرسوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد اور مریضوں کے رشتہ دار ان کو تنگ کرتے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کی 60 فیصد خواتین نے مالکان اور ساتھ کام کرنے والے مردوں کی طرف سے ہراساں کئے جانے کی شکایت کی ہے۔ معاشی استحصال اور طلاق میں آسانی معاشرے میں بگاڑ اور جنسی بے راہ روی کا سبب بن رہی ہے۔ سال 2018ء میں خواتین کی طرف سے خلع کے15800 دعوے دائر ہوئے۔ عدالتوں سے طلاق حاصل کرنے کے بعد خواتین کی اکثریت کو والدین کے ہاں بھی پناہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے خواتین خودکشی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کرنے والی خواتین کی 70فیصد کی خودکشی کرنے کی وجہ معاشی مجبوریاں اور بھوک تھی جو ہمت کر کے کاروبار کرنا چاہتی ہیں ان کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شمسہ یوسف گزشتہ 20سال سے سٹیئر فری کے نام سے نا صرف ایک کامیاب کاروباری ادارہ چلا رہی ہیں بلکہ خواتین کے حقوق کے لئے بھی لڑ رہی ہیں۔ شمسہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں اول تو خواتین کے لیے روزگار کے مواقع ہی ناپید ہیں اگر کہیں نوکری مل بھی جائے تو مالکان سمیت ساتھ کام کرنے والے عملے کی نگاہیں عورت کے کام کے بجائے اس کے جسم پر ہوتی ہیں۔ انہوں نے خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ حمید ہ شاہین کے اس شعر کی صورت میں سنا یا: کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں شمسہ کے مطابق جب تک اس نگری میں عورت کے بدن سے آگے نہ دیکھنے کا چلن ختم نہیں ہوتا عورت ظلم اور جبر سہنے پر مجبور رہے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس جتنی بھی خواتین آتی ہے وہ ان کو پہلا مشورہ یہ دیتی ہیں کہ عورت کو اپنے اردگرد کی نظروں سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ جب تک عورت خود کو مضبوط رکھے گی اس وقت تک وہ محفوظ بھی رہے گی۔ان کے مطابق عورت کی حالت قوانین بنانے یا تقریروں سے نہیں عملی اقدامات اور رویوں میں تبدیلی سے ہی بدل سکتی ہے۔ پاکستان میں حقوق نسوان کے نام پر خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ خاندانی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے طلاق لینے والی خواتین بے یارو مدگار ہوس زدہ معاشرے کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ بدقستی سے مغرب کی تقلید کے رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورت جنس بن کر رہ گئی ہے۔ عورت کے تحفظ کے لئے قوانین کے ساتھ سماجی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام محض خواتین کے عالمی دن پر تقریروں اور سیمینارز سے تو ہونے سے رہا۔ اس کے لیے معاشرتی احساس اور خاندانی نظام کو فروغ دینے کے ساتھ عورت کی معاشی خود مختاری کو بھی یقینی بننا ہوگا۔