امید کے کھیت میں امکانات کے بیج بونے کو سیاست کہتے ہیں اور امکانات کی بہتر کاشت اور اپنے مفادکی صورت گیری کرنے والے کو سیاستدان‘ ایسی ہی ایک کوشش چند روز پہلے پاکستان مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اپنے ایک خیر اندیش صحافی کے ساتھ دل کے پھپھولے پھوڑ کر کی۔ گزشتہ الیکشن کو یاد کرتے ہوئے پہلا انکشاف تو یہ کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہیں اسی لئے تو گزشتہ انتخابات سے ایک ماہ قبل طاقتور حلقے ان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ان کے ساتھ مستقبل کی کابینہ کے ارکان تک کے نام فائنل کر چکے تھے۔ اقتدار کا ہما عمران خان کے سربٹھائے جانے کی وجہ انہوں نے بڑے بھائی صاحب کی ووٹ کو عزت دلوانے کی ضد اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر مکمل اختیار کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے کا یقین بتایا۔ محترم صحافی کے مطابق انہوں نے دل کھول کر سوالات کئے مثلاً نواز شریف کا جانشیں کون ہے؟ مریم نواز اور حمزہ شہباز کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا۔ ان کے مطابق شہباز شریف نے ہر سوال کا جواب بھی دیا مگر موصوف نے صرف وہ خبریں لیک کیں جو پہلے بھی کوئی راز نہیں تھیں۔ اقتدار کی ریس میں دوڑنے والے تمام گھوڑے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ میاں شہباز شریف نے جن طاقتور حلقوں کے ساتھ کابینہ کے نام فائنل کئے تھے وہ کبھی ایک گھوڑے پر ہی دائو نہیں لگاتے بلکہ ہمیشہ پلان اے پلان بی اور سی کے مطابق حکمت عملی طے اور پیش بندی کی جاتی ہے۔ کابینہ کا فائنل ہونا تو کوئی انکشاف نہیں۔ البتہ اس انکشاف کے ذریعے انہوں نے بڑے بھائی کے انتخابات میں ووٹ کو عزت دو والے نعرے سے مکمل علیحدگی کا تاثر دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔میاں نواز شریف کی حالت یقینا وزیر علی صبا لکھنوی سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو گی: میرے بغل میں رہ کے مجھی کو کیا ذلیل نفرت سی ہو گئی ہے دل خانہ خراب سے سابق خادم اعلیٰ نے بڑے بھائی کی سیاست سے اعلان لاتعلقی کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مقصد مقدور حلقوں کو پیغام دینا تھا کہ وہ بڑے بھائی کی محاذ آرائی کی سیاست ترک کر کے اسی تنخواہ پر کام کرنے پر تیار ہیں دوسرے مسلم لیگ کے مایوس ارکان کو یہ تسلی دینا مقصود تھا کہ مسلم لیگ کے اقتدار میں آنے کے امکانات ابھی کلی طور پر مخدوش نہیں ہوئے۔ امید کی تصویر میں انہوں نے پرویز الٰہی کے ساتھ تعلقات کے نیو ٹرل ہونے کا رنگ بھرا ہے اور پرویز الٰہی کے حمزہ شہباز کو عمران خان کی مخالفت کے باوجود اسمبلی میں بلانے کو دلیل بنایا ہے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے اور چودھری خاندان کو جاننے والوں کے لئے یہ کوئی انکشاف نہیں۔ شریف فیملی اور چودھری خاندان کی سیاست میں یہی ایک فرق ہے کہ چودھری خاندان سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہیں بناتا اور برے کی برائی کو نظر انداز کر کے اچھائی میں بدلالوٹاتاہے۔ حمزہ کو جیل سے اسمبلی والی چودھریوں کی مہربانی پہلی ہے نا نئی۔ پرویز مشرف دور میں جب میاں برادران معاہدہ کر کے جدہ کے سرور پیلس میں مقیم ہوئے اس وقت بھی چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت نے اپنے اقتدار کے دنوں میں شریف فیملی کو ہر ممکن رعایت دے کر یہ ثابت کیا تھا چودھری خاندان سیاسی اختلاف کو کبھی ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیتا۔ چودھری پرویز الٰہی یقینا شریف فیملی بالخصوص میاں نواز شریف کے انداز سیاست سے واقف بھی تھے۔ میاں برادران نے ان کے خدشات کو اپنے اقتدار کی تیسری باری کے دوران مونس الٰہی کے خلاف مقدمات کی صورت میں سچ ثابت کر دیا۔یہ شریف خاندان کی مہربانیاں ہی ہیں جو چودھری مونس الٰہی کی وزارت میں آج بھی حائل ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی چودھری خاندان خاص طور پر چودھری شجاعت حسین مٹی ڈال کر آگے بڑھنے کا ظرف رکھتے ہیں مگر وہ اندھے کنویں میں کودنے پر ہرگز تیار نہ ہوں گے۔ شہباز شریف کے امکان کے اس بیج پر پھل پھول لگنے میں ایک مشکل تو خود میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان پر مقدمات ہیں، شکیب جلالی نے کہا ہے نا! سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں میاں شہباز شریف بھلے ہی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہونے کا کہہ کر لباس میں ایک شکن بھی نہیں ہونے کی دہائی دیں۔ مگر جب تنہائی میں سوچتے ہیں تو ان کو سلوٹوں سے بھری روح کا سامنا ہوتا ہے اور اس بات سے پرویز الہیٰ بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر شہباز شریف کے دعوے کے مطابق مقتدر حلقے کسی بندوبست پر آمادہ ہو بھی جائیں تب بھی شہباز شریف کو لباس پر لگے داغ دھونے میں جتنا عرصہ درکار ہو گا وہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات!! شریف فیملی 80ء کی دہائی میں بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے اقتدار میں آئی۔ میاں نواز شریف اگر بعد میں سیاسی عمل میں شامل ہوئے بھی تو شہباز شریف کو تو ہر بار اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ملتا رہا ہے۔ اس کے برعکس چودھری خاندان قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیاست کی پرخار وادی کا مسافر رہا ہے۔ چودھری ظہور الٰہی شہید سے آج تک سیاست کے نشیب و فراز دیکھے ہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اتنے ہی لاعلم ہوں کہ میاں شہباز شریف عثمان بزدار کی جس کرسی کو مقتدر حلقوں کی مدد سے حاصل کرنے کا خواب دکھا رہے ہیں۔ عثمان بزدار کو اس کرسی پر بٹھانے والے عمران خان نہیں اگر انہوں نے بٹھایا ہوتا تو کب کا اتار بھی چکے ہوتے ۔اس لئے چودھری پرویز الٰہی یقینا میاں شہباز شریف کا وزارت اعلیٰ کا دانہ جگنے والے نہیں۔ ویسے بھی چودھری خاندان کو سیاست کی اونچ نیچ کا ادراک شریف فیملی سے زیادہ ہے اورنشور واحدی نے کہا ہے: سلیقہ جن کو ہوتا ہے غم دوراں میں جینے کا وہ شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے