وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار نے وزارت اطلاعات و ثقافت پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ادبی و ثقافتی اداروں سے وابستہ افراد کی گرانٹ مستحقین تک فوری پہنچائی جائے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کورونا لاک ڈاؤن سے سب متاثر ہوئے ، فنکاروں سمیت سب سے ہمدردی ہے ۔فنکار کسی بھی ملک کا قومی اثاثہ ہوتے ہیں ، میں نے گزشتہ روز کے کالم میں لکھا تھا کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے فنکاروں کیلئے اعلان کئے گئے فنڈز کی تقسیم عید سے پہلے ہونی چاہئے ۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیراعلیٰ نے بروقت قدم اٹھایا ہے اور عید سے قبل فنکاروں کو امدادی رقم تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ ابھی کل ہی طویل علالت کے بعد صدارتی ایوارڈ یافتہ معروف چولستانی فنکار کرشن لعل بھیل فوت ہو گئے ، اب امداد ان کے کام نہ آ سکے گی ، یہ ٹھیک ہے کہ وزیر تعلیم چوہدری شفقت محمود جن کا تعلق رحیم یارخان سے ہے نے کرشن لعل بھیل کے لواحقین کو پانچ لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے اور آنجہانی کے بیٹے سے فون پر تعزیت بھی کی ہے ، کیا ہی بہتر ہوتا کہ چوہدری شفقت محمود کرشن لعل بھیل کو یہ رقم ان کی بیماری کے دوران دیتے اور ان کی تیمارداری بھی کرتے ۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا بھی خوش آئندہے کہ کورونا کے خاتمے پر صوبے میں بھرپور ادبی و ثقافتی سرگرمیاں شروع کریں گے ۔ قیام پاکستان کے بعد 23سال اقتدار کی رسہ کشی اور مار شل لاؤں کی نظر ہو گئے ، ذوالفقار علی بھٹو پہلے سربراہ تھے جنہوں نے ثقافتی پالیسی بنائی ، ادبی و ثقافتی ادارے قائم کئے اور ملک بھر میں ثقافتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد پھر وہی صورتحال پیدا ہو گئی اور ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے جمہوریت کے ساتھ ثقافت کا بھی گلا گھونٹ دیا ۔ عمران خان کی حکومت کو بر سر اقتدار لانے میں گلوکاروں اور فنکاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، نہ صرف یہ کہ ثقافتی پالیسی نہیں بن سکی بلکہ ، عمران خان کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ تحریک انصاف کو کامیاب کرانے والے فنکاروں کی خیریت ہی دریافت کر لیں ۔ عثمان خان بزدار کا تعلق ادبی و ثقافتی مرکز تونسہ سے ہے ، اس لحاظ سے وہ ادب و ثقافت سے پیار کرتے ہیں اور انہوںنے صوبے میں ادبی ثقافتی تقریبات کا اہتمام بھی کیا ہے ‘ ان کے طریقہ کار پر میرے سمیت بہت سے دوستوں کو اعتراض ہوا ، جس پر صوبے میں پنجابی ثقافتی تقریبات کے ساتھ ساتھ سرائیکی کو بھی شامل کیا گیا ۔ ہماری درخواست ہے کہ یہ حق پوٹھوہاری کو بھی ملنا چاہئے اور وزیراعلیٰ کو فوری طور پر قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آرٹ، لینگویج اینڈ کلچر کی طرز کا ادارہ پوٹھوہاری اور سرائیکی زبان کے لئے بھی قائم کرنا چاہئے کہ سرائیکی وسیب کے ساتھ خطۂ پوٹھوہار بھی صوبے کو برابر ریونیو ادا کر رہا ہے ، وزیراعلیٰ کو جرات کے ساتھ اپنے اختیارات استعمال کرنا ہونگے ۔ عثمان بزدار جب سے بر سر اقتدار آئے ہیں، اپوزیشن کی طرف سے ان کی اتنی ہی مخالفت نہیں ہوئی جتنی کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ سازشیں کرتے نظر آئے ۔ سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کا قصور کیا ہے ؟ کبھی ان کی سادگی پر اعتراض ہوتاہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ بول نہیں سکتے اور کبھی ان کی تعلیمی قابلیت پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ وہ غلام حیدر وائیں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور سادگی عیب نہیں بلکہ خوبی کے طور پر زمرے میں آتی ہے ، وہ مسلسل دورے کر رہے ہیں ، کورونا آفت ہو یا گندم کی کٹائی ، وہ ہر جگہ پہنچے اور لوگوں میں گھل مل گئے ۔ تونسہ کے علاقے وہوا اچانک گئے ،لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے ۔ وہاں کے لوگوں نے اپنے تاثرات میں میڈیا کو بتایا کہ ہم نے زندگی میں کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ صوبے کا کوئی وزیراعلیٰ ہمارے درمیان موجود ہوگا ۔ وزرات اعلیٰ کے خواب دیکھنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ عثمان بزدار کی تعیناتی اکیلے عمران خان کا بھی فیصلہ نہیں تھا ، اس فیصلے میں تمام مقتدر قوتوں کی مشاورت شامل ہے اور تونسہ خصوصاً وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا علاقہ بارتھی کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس علاقے میں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور بزدار قبیلے کو پاکستان زندہ باد کہنے کا انعام بھی ملنا تھا ۔ جرم کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتا چلوں کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اقتدار سے ہٹائے گئے تو انہوں نے صدر زرداری سے ملاقات پر سرگوشی کی حالت میں کہا کہ اب آپ نے مہربانی کرنی ہے اور سرائیکی صوبے کے عمل کو رکنے نہیں دینا ۔ اس پر صدر آصف زرداری اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور گیلانی سے کہا کہ کان میری طرف کرو ، گیلانی صاحب قریب ہو کر گوش بر آواز ہوئے تو زرداری صاحب کی طرف سے آواز آئی ’’ تم وزیراعظم ہاؤس سے گھر جا چکے ہو ، ابھی تم کو سمجھ نہیں آئی ۔ ‘‘ بارِ دیگر کہوں گا کہ عثمان خان بزدار کو طاقت کے ساتھ اپنے اختیارات استعمال کرنے ہونگے اور بجٹ میں تین ارب روپے جو کہ سب سول سیکرٹریٹ کیلئے رکھے گئے تھے ، اسے فوری طور پر صوبائی سیکرٹریٹ کیلئے استعمال کرنا چاہئے اور صوبے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں کہ وسیب کے لوگ الگ ملک نہیں صوبہ مانگ رہے ہیں۔ کورونا نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ، نئے حالات ،نئے امکانات اور نیا زمانہ پیدا ہو رہا ہے ۔ سب کچھ بدل رہا ہے ، کورونا سب سے زیادہ اسلحہ اور دولت رکھنے والے نیٹو ممالک میں آیا کہ وہاں سب سے زیادہ بے انصافی ہے ۔ ان ممالک نے غریب ملکوں کو کچل کر رکھ دیا ہے ۔ اب مساوات اور انصاف کا نظام قائم کرنا ہوگا ۔ سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس قاضی امین کا یہ کہنا کہ پاکستان میں نظامِ عدل ختم ہو چکا ہے ، صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے لئے بہت بڑی وارننگ ہے ۔ شاعر نے کیا خوب کہا : ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے