پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سنیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی وفات پر پورے ملک میں سوگ کی کیفیت ہے۔ اُن کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ وفات برین ہیمبرج کی وجہ سے ہوئی۔ البتہ اُن کے رشتہ داروں اور پارٹی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ موت طبعی نہیں ہے اور ہم تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عثمان خان کاکڑ کو 17 جون کو شہباز ٹائون کوئٹہ سے بیہوشی کی حالت میں ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ پارٹی رہنما محمود خان اچکزئی نے اُس وقت ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ گھر میں اچانک میں دورہ پڑا اور وہ گر پڑے اور اُن کے سر میں چوٹ آئی جس سے وہ بیہوش ہو گئے۔ البتہ صوبائی سیکرٹری یوسف خان کاکڑ نے بتایا کہ بیہوش ہونے سے پہلے عثمان کاکڑ صحت مند تھے۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے دماغ کا آپریشن کیا مگر وہ ہوش میں نہ آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر اُن کو کراچی منتقل کیا گیا اور سندھ حکومت نے علاج کرایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ عثمان خان کاکڑ نے کچھ عرصہ پہلے سینٹ میں تقریر کی جو کہ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی ہے۔ اپنے خطاب میں عثمان خان کاکڑ نے پاکستان کے تمام محکوم طبقات کے حقوق کی بات کی اور سرکاری بینچوں سے ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر وہ لوگ براجمان ہیں جنہوں نے انگریزوں سے وفاداری کے سلسلے میں مراعات، جاگیریں اور عہدے حاصل کئے تھے۔ عثمان خان کاکڑ دلیر اور بہادر رہنما تھے وسیب کے لوگ اس بناء پر اُن سے محبت کرتے تھے کہ اُن کا وسیب سے ایک تعلق تھا۔ انہوں نے ہمیشہ وسیب کے حقوق کی بات کی۔ ذاتی پس منظر کے حوالے سے اُن کا تعلق پشتونوں کے معروف قبیلے کاکڑ سے تھا، وہ 21 جولائی 1961ء میں مسلم باغ قلعہ سیف اللہ میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک کے بعد انہوں نے بہاولپور سے انجینئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ وہ بہاولپور سے متاثر تھے اور بہاولپور سے محبت کرتے تھے اور بہاولپور کی یادوں کا تذکرہ کرتے۔ سائنس کالج کوئٹہ سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اکنامکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے وہ پشتون قوم پرست سیاست سے وابستہ تھے۔ پشتونخواہ ملی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے عہدوں پر فائز رہے اور 1987ء میں اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں آمریت کے خلاف جدوجہد کی اور ترقی پسند طلباء کو پاکستان پروگریس الائنس کے نام سے متحد کیا۔ 1986ء میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی میں فعال کردار کی وجہ سے وہ صوبائی صدر منتخب ہو گئے۔ 2015ء میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ عثمان خان کاکڑ نے اپنی پارٹی میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ پونم اور ایم آر ڈی کی تحریکوں میں بھی متحرک رہے۔ سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے عثمان خان کاکڑ نے کہا تھا کہ جناب چیئرمین صاحب میں ذاتی بات کرنا چاہتا ہوں میں نے 6 سال کوئی بات نہیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں قوموں کی بات کرنا چھوڑ دیں۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کرنا چھوڑ دیں اور غیر جمہوری قوتوں پر تنقید نہ کریں۔ لیکن مجھے اپنے نظریات، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی بہت عزیز ہے۔ عثمان خان کاکڑ کی موت قومی المیہ ہے وہ ایک قومی رہنما تھے اور اُن کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔ اُن کی موت کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے، تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو انگریزوں نے مشرقی ہند (بنگال) اور جنوبی ہند پر اچھی طرح تسلط جمانے کے بعد شمالی ہند کا رخ کیا۔ 1843ء میں سرچارلس نیئر نے سرائیکی بولنے والے امیران سندھ کی ریاست خیر پور اور حیدر آباد کو شکست دے کر سندھ کو برطانوی ہند میں شامل کیا۔ 1849ء میں ملتان پر بھی قبضہ کر لیا۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد کو زیر نگیں کرنے کیلئے انہوں نے جوڑ توڑ اور مکاری کا سلسلہ شروع کیا۔ مقامی غدار پیدا کئے اور ان علاقے کے غداروں کو ترغیبات دیں اور 31 مئی 1876ء کو مستونگ میں بلوچستان کے سرداروں کو اپنا ہمنوا بنا لیااور انگریزوں نے سنڈیمن کو فاتح بلوچستان کا لقب دیا۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں مختلف قومیں اور قبیلے آزاد ہیں۔ براہوی اس خطے کی قدیم زبان ہے براہوی ریاست قلات کے حکمران رہے۔ بلوچستان میں شامل بہت سے اضلاع پشتونوں کے ہیں اور پشتون قبائل کاکڑ، گلزائی، ترین، مندوخیل، شیرانی، لیونی اور اچکزئی زمانہ قدیم سے آباد چلے آرہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ، پشتون کشمکش موجود ہے اس موقع پر براہوی قبائل کی ہمدردیاں بھی بلوچ قبائل کے ساتھ ہوتی ہیں۔ تاریخی طو رپر بلوچ قبائل چنگیز خان کے حملے کے بعد ایران سے ہجرت کرکے آئے۔ اُس وقت کیچ مکران سیشتان کہلاتا تھا اور اس علاقے میں براہوی، سندھی، سرائیکی اور دیگر قدیم اقوام آباد تھیں۔ ابتداء میں بلوچ کو بلوص ، بعلوث اور بلوش کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریز سامراج حملہ آور تھا اُس کا ہندوستان سے کوئی تعلق نہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے تھیں جب ہم بلوچستان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو جہاں انگریز نے اپنے وفاداروں کو بہت سی مراعات دیں وہاں اُن کی کڑی نگرانی اور جاسوسی بھی کرائی جاتی رہی اور وہ سردار جو کہ دھرتی کے خدا کہلاتے تھے اور خدا کی مخلوق کیلئے جابر بنے ہوئے تھے انگریزوں کے سامنے بول بھی نہ سکتے تھے۔ اب انگریز سامراج چلا گیا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو با اختیار بنایا جائے اور ان کو حقوق دیئے جائیں اور غریب عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔