زندگی میں بعض واقعات، مکالمے یا لمحات ایسے بھی آتے ہیں جن کے نقش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔جب کبھی ان کا خیال آیا، دل انبساط سے سرشار ہوجاتاہے۔ ہمارے ہاں یہ عام رواج بن گیا ہے کہ اِدھر اُدھر سے منفی واقعات ڈھونڈ، انہیں یکجا کر کے سماج کی ایک بدہئیت، سیاہ تصویر بنا دی جاتی ہے۔ لفظوں کا کچھ ایسا تانا باناتحریر کر دیا گیا جسے پڑھنے کے بعد آدمی ڈپریشن اور مایوسی کی خوفناک دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے آس پاس ظلم، نفرت،وحشت موجود نہیں۔ بہت کچھ ناپسندیدہ ہے۔ خاصا کچھ مگر وہ بھی موجود ہے جن سے مثبت، روشن کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ ان کی مشعل سے تاریک سرنگیں روشن ہوجاتی ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان خوبصورت،دل خوش کن واقعات، لمحات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ ان پر بات ہو، اہمیت دی جائے، باہمی مکالمے کا حصہ بنے اور ان سے سبق کشید کر کے اپنی زندگیوں کو روشن کیا جائے۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، یوکرائن سے ایک صاحب کبھی کبھار فون کیا کرتے۔ اوورسیز پاکستانیز کا ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے۔ اپنے مسائل اور مجبوریوں کی بنا پر وہ پاکستان سے دور تو چلے گئے ،مگر وطن ان میں سے بیشتر کی زندگیوں میں بستا ہے۔ اس کی یادوں سے ان کے شب وروز مہکتے ہیں۔ پاکستان میںموجود خرابیوں، بیڈ گورننس پر اوورسیز پاکستانی یہاں کے لوگوں سے بھی زیادہ ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ایک وجہ شائد یہ بھی ہو کہ انہیں گڈ گورننس کی افادیت اور کرشمے کا اندازہ ہے۔وہ صاحب بھی فون کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے اور اکثر کوئی نہ کوئی تجویز دیتے کہ اس مسئلے پر بھی لکھیں۔رمضان کے انہی ایام میں ایک رات تراویح کے بعد ان کی قدرے طویل کال آئی۔ باتوں میں انہوں نے اپنی کہانی سنائی جو بڑی دلچسپ اور ایمان افروز تھی۔ کہنے لگے کہ روزگار کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح یوکرائن پہنچ گیا تھا۔ وہاں ملازمت نہیں مل رہی تھی، حالات بہت خراب ہوگئے۔ ایک دن تویہ حالت ہوگئی کہ کھانے پینے کے لئے بھی پیسے نہیں بچے تھے۔ ان صاحب کے بقول رات کو انہوں نے کاغذ قلم اٹھایا اور باقاعدہ طور پر رب تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ تحریر کیا۔ انہوں نے عہد کیا کہ آج کے بعد سے زندگی بھر کے لئے وہ جو بھی کمائیں گے، اس کا ایک تہائی (33) خدا کے نام پر خرچ کریں گے۔ عزم صمیم کرنے کے بعد وہ سو گئے۔ اگلے دن حیران کن طور پر انہیں کہیں سے ملازمت کی آفر آئی۔ فوری جوائن کر لیا،کمپنی نے اپنے قواعد کے مطابق انہیں کچھ پیسے ایڈوانس دے دئیے ۔ تین چارہ ماہ ہی میں حالات بدلتے گئے، زیادہ بہتر ملازمت کی پیش کش ملی، پھر کسی نے کاروبار کا مشورہ دیا ۔ اپنا کام شروع کیا تو ایسا حساب ہوا کہ مٹی کو ہاتھ لگاتے تو وہ سونا بن جاتی۔ چند ہی برسوں میں کاروبار بہت ترقی کر گیا اوران صاحب کے بقول اب میں یوکرائن کی دوسری بڑی فروٹ جوس کمپنی کا مالک ہوں،کئی سو ایکڑ زمین خرید لی ہے،جدید کاشت کاری کے علاوہ کئی اور کاروبار بھی چل رہے ہیں۔ یہ دلچسپ ، ڈرامائی کہانی سن کر ان سے دریافت کیا کہ جو وعدہ کیا تھا، اس کا کیا بنا؟ کہنے لگے کہ اس پر سختی سے کاربند رہا ہوں۔ جو ملازمت ملی تھی، اس کی پہلی تنخواہ ہی سے ایک تہائی الگ کر لئے اور ناداروں کے لئے کام کرنے والے ایک مقامی ادارے کو عطیہ کر دئیے۔ اس اصول پر باقاعدگی سے عمل جاری ہے اور اب تو حساب کتاب بھی خاصا مشکل ہوگیا کہ ایک تہائی لاکھوں تک پہنچ چکے ہیں۔ وہ صاحب کراچی کے رہائشی تھے اور اپنے شہر میں کوئی چیریٹی ادارہ وغیرہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ پچھلے کئی برسوں سے ان سے رابطہ نہیں ہوا،اس دوران میرے دوموبائل نمبر بدل چکے ہیں، پرانے دوستوں سے بھی رابطہ نہیں رہا۔معلوم نہیں آج کل وہ کہاں ہیں اور کیا حالات چل رہے ہیں؟ امید ہے کہ رب ِکریم کی رحمتوں کے سائے میں ہوں گے۔ یہ قصہ ایک دو بار پہلے بھی لکھا۔ ہر بار اسے لکھتے ہوئے عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ایک بار اسے پڑھ کر کسی نے ای میل کی کہ آپ نے لکھ تو دیا ہے، لیکن اگر کسی شخص نے اس کی تقلید کرتے ہوئے خدا سے عہد کر ڈالا اور اس کی زندگی تبدیل نہ ہوئی تو کہیں اس کا ایمان خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اس طرح کا احتمال تو رہتا ہی ہے، مگر اپنی زندگی میں ابھی تک میں نے کسی ایک بھی شخص کو نہیں دیکھا، جس نے رب تعالیٰ کے ساتھ کاروبار کیا ہو اور اسے گھاٹا ملے۔ وہ جو سب جہانوں کا خالق، مالک ہے، اس کے خزانوں میں کوئی کمی ہے نہ اس عظیم الشان ہستی کی سخاوت، فیاضی تک کوئی پہنچ سکے گا۔ بہت لوگ ملتے ہیں جو اس طرح کایا اس سے ملتا جلتا عہد کرنے کے بعد اپنی زندگی میںخوشگوار تبدیلی آنے کی روداد سناتے ہیں۔ اصل بات تو یقین اور اعتقاد ہی ہے اور یہ کہ آپ اپنے مالک کی رضا میں کس حد تک راضی اور خوش رہتے ہیں۔ آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے،ان دنوں میرے پاس پرانی موٹر سائیکل تھی۔ بارشوں میں وہ نیک بخت ہمیشہ بند ہوجاتی اور اس کا خاص اہتمام کرتی کہ اس سڑک پر خرابی پیدا ہو جہاں دور دور تک کوئی مکینک نہ ملے۔ خیر مشکل وقت گزر ہی جاتے ہیں، ہم بھی ان سے الحمدللہ نکل گئے، مگر اپنی اس بائیک جسے میں محبت سے لیلیٰ کہا کرتا ،اس کے باعث بہت سے مکینک واقف کار بن گئے۔ ان دنوں جس اخبار میں کام کرتا ، اس سے قریب ایک مکینک کی دکان تھی۔ ان صاحب کی خوبی یہ تھی کہ آپ جتنی بار کام کرائو، زیادہ سے زیادہ اڑتالیس گھنٹے یعنی دو دن تک اس کا اثر رہتا، ٹھیک تیسرے دن بائیک پھرخراب ہوجاتی۔ معلوم نہیں کہاں سے ایسی مہارت اورکمال حاصل کیا تھا کہ اڑتالیس سے بہتر گھنٹے نہیں ہو پاتے،ہر بار مخصوص وقت ہی میں بائیک دوبارہ خراب ہوجاتی۔ اس لئے وہاں جانے سے گریز کرتے کہ اس کے بعد بھی خجل خوار ہی ہونا ہے۔ ایک بار اتفاق سے گزر ہوا تو دیکھا کہ دکان کے باہر بے پناہ رش ہے، کئی موٹرسائیکلیں کھڑی ہیں اور تین چار مکینک ان کی مرمت کر رہے ہیں۔ دکان پر اجنبی چہرہ دیکھنے کو ملا۔ کسی ساتھی ملازم نے بعد میں بتایا کہ دکان کا مالک بدل گیا ہے، اب وہاں پر بڑا اچھا کام ہوتا ہے، دور دور سے لوگ اپنی موٹرسائیکلیں ٹیوننگ ، مرمت وغیرہ کے لئے ادھر ہی لاتے ہیں۔ ہم بھی وہاں گئے اور کام کے معیار سے متاثر ہوئے۔ وہ پڑھے لکھے معقول آدمی تھے۔ اخبارباقاعدگی سے پڑھا کرتے اور اسی واسطے انہیں خاکسار کے کالموں سے بھی واقفیت تھی۔گپ شپ ہوتی رہتی، ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ کی دکان آتے ہی چل پڑی ، کاروبار ماشااللہ بڑھتا ہی جا رہا ، راز کیا ہے؟مسکرانے لگے ، پھر بتایا کہ کسی اخبار، رسالے میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس میں لکھنے والے نے مشورہ دیا کہ جو بھی کاروبار شروع کیا جائے ، اس کا پانچ فی صد اللہ کے نام پر الگ کر دیا جائے ، ان شااللہ وہ پانچ فیصد بڑھتا ہی جائے گا اور اس کے تناسب سے کل آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ کہنے لگے کہ میں نے اس سادہ اصول پر عمل کیا۔موٹرسائیکل کے سپیرپارٹس کی دکان میرے لئے نیا تجربہ تھا، زیادہ واقفیت نہیں تھی، مگر ایمانداری اورمناسب منافع کے ساتھ خدا کے ساتھ پانچ فیصد پارٹنر شپ کے اصول کو اپنایا،اس بارے میں اتنی احتیاط برتی کہ ہر روز دکان سے نکلتے وقت پہلے بیٹھ کر آمدنی اور منافع کا حساب کرتا ہوں اور پھر ایمانداری سے پانچ فیصد الگ کر لیتا ہوں۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ میں نے یہ گر کئی لوگوں کو بتایاہے، خاندان کے بعض لوگوں نے اسے آزمایا بھی ہے، فائدہ مگر صرف انہیں ہوا جنہوں نے دیانت داری سے کام کیا۔ شائد اس لئے کہ اللہ کے ساتھ پارٹنر شپ کرنی ہے تو پھر دو نمبری یا بددیانتی کی گنجائش نہیں ۔ کسی اور پارٹنر کو تو آدمی دھوکا دے سکتا ہے، رب تو سب جانتا اور سمجھتا ہے، اس سے کیا چھپ سکے گا۔ فیس بک کی دنیا میں ابھی نیا تھا، یہ بھی آٹھ نو برس پہلے کا واقعہ تھا۔ ملائشیا میںمقیم ایک صاحب سے فیس بک چیٹ چلتی رہتی۔ وہ ایک اچھی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا باس غیر مسلم ہے، مگر پہلے ماہ اس نے نصیحت کی کہ جو بھی کمائو، اپنی آمدنی میں سے دس فیصد چیریٹی کے لئے الگ کر لو اور صرف نوے فیصد کو اپنے لئے سمجھو ۔ بتانے لگے کہ کئی ملائی، چینی کولیگز، دوستوں سے بات ہوتی رہتی ہے، ان میں سے بیشتر غیر مسلم ہونے کے باوجود اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے ایک تو ذہنی سکون اور طمانیت میسر آتی ہے، دوسرا ہماری طرف سے سوسائٹی کے لئے کنٹری بیوشن ہوجاتا ہے۔ تین چار سال پہلے ایک امریکی اور پاکستانی مصنف نے مل کر اسی تھیم پر کتاب بھی لکھی تھی۔ اس میں اپنی پوری زندگی کے دس فیصد کو سماج کے لئے مختص کرنے کا پلان ڈسکس کیا تھا۔ وہ کتاب بہت دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والی ہے ، کسی نشست میںان شااللہ اس پر بھی بات کریں گے۔