منظرکسی شادی کی تقریب کا تھا ،لوگ صاف ستھرے اجلے معطر لباس میں ترتیب سے لگی کرسیوں پر بیٹھے تھے نکاح کا آغاز ہوا چاہتا تھا کہ ایک پاٹ دار آواز گونجی ’’ٹھہریئے گا مولوی صاحب!‘‘ سب کی نظریں یک دم اس آواز کے ماخذ ایک دبلے پتلے لڑکے پر مرکوز ہوگئیں ،کھلتا ہوا گندمی رنگ ،کھڑے ناک نقشے پتلے پتلے ہونٹ بیضوی چہرے پر نرم رواں گواہی دے رہی تھیں کہ ابھی حال ہی میں لڑکپن کی سرحد عبور کی گئی ہے ۔ ’’یہ شادی نہیں ہوسکتی ‘‘ اس نے گویا بم پھاڑ دیا، ایک ساتھ کئی آوازیں اٹھیں ہائیں ۔۔۔کیا کہہ رہے ہو۔۔۔چپکے رہو ،بیٹھ جاؤ یہ کیا طریقہ ہے اجی ۔۔۔دولہا میاں بھی سہرا باندھے حیرت سے لڑکے کو دیکھے جارہے تھے جس نے رنگ میں بھنگ ڈا ل دیا مولوی صاحب نے ہاتھ اٹھا کر سب کوچپ کرایاا ورس لڑکے سے پوچھا ’’بھئی !آپکو کیا اعتراض ہے یہ شادی کیوں نہیں ہوسکتی۔‘‘ ’’نکاح تو دو مسلمانوں میں ہوتا ہے یہ صاحب تو ہمیں محلے میں صبح شام لادینیت کا درس دیتے ہیں، کمیونزم پر لیکچر دیتے ہیں ،یہ کہاں سے مسلمان ہو گئے ؟‘‘ بات ایسی ہی تھی یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان تقسیم ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا ترقی پسند کہلانے والے کامریڈ سرخ انقلاب کیلئے مشنری جذبے سے کا م کررہے تھے۔ پڑھے لکھے طبقے میں اسکے خاصے اثرات تھے وہ صاحب بھی اپنے نظریات کا کھل کر اظہار اور تبلیغ کرتے تھے اب ان کی شادی ہورہی تھی اور ان سے نظریاتی پنگے لینے والا دھان پان سا لڑکا یہاں بھی آکھڑا ہواتھا دولہا سہرا باندھے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اسے بیٹھنے کے لئے کہہ رہا تھاا ور یہ تھا کہ اپنی بات پر ڈٹا ہواکھڑا تھا اس نے مطالبہ کیا کہ پہلے دولہے کو کلمہ پڑھایا جائے دولہے نے جھٹ سے اپنی ترقی پسندی اتاری اورکلمہ پڑھا پھرلڑکے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اب تو اجاز ت ہے ناں۔ لڑکے کی آواز ایک بار پھر بلند ہوئی’’دیکھئے جناب ! اب آپ نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو چکے ہیں اب آپ نے کوئی ایسی ویسی بات کی تو یاد رکھئے گا اسلام میں ارتداد کی کیا سزا ہے ہم برداشت نہیں کریں گے‘‘یہ حق گوئی ، جرأت اور بات کہہ کر ڈٹ جانا اس لڑکے کی شناخت بنی جسے دنیا سید منور حسن کے نام سے جانتی ہے۔ سید منور حسن پاکستان میں جماعت اسلامی کا ہی نہیں دنیا بھر میں غلبہ ء اسلام کی تحاریک کا اثاثہ تھے، سخت مزاج تھے اور بہترین منتظم تھے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں جماعت اسلامی پہلی بار عوامی بننے چلی تھی ان دنوں جماعت اسلامی نے کئی تجربے کئے انتخابی میدان میں تو جماعت اسلامی کامیاب نہ ہوسکی البتہ وہ ایک خول سے باہر نکلنے میں ضرور کامیاب ہوئی۔ کہتے ہیں اس جماعت اسلامی کے مقبولیت اور کامیاب پروگراموں کے تسلسل کے پیچھے اس وقت کے سخت مزاج سیکرٹری جنرل منور حسن ہی تھے ،یہ بلا کے خطیب اور مقرر تھے جو بات کہنی ہوتی ڈنکے کی چوٹ پر کہتے اور پھریو ٹرن نہ لیتے۔ کراچی میںایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اسکے باوجود یہ کھلے بندوں بنا کسی سکیورٹی کے عام سی کار میں پھرتے تھے ایک بار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے ذرائع سے منور حسن صاحب کے بارے میں کچھ تشویش ناک اطلاعات ملیں آئی جی سندھ نے انہیں فون کیا کہ جب کراچی آنا ہو تو پیشگی اطلاع دیجئے گا تاکہ سکیورٹی کا انتظام کیاجائے یہ سن کر منور حسن صاحب نے کہاکہ آپ جنہیں میری حفاظت کے لئے بھیجیں گے ان کی حفاظت کون کرے گا۔آئی جی صاحب نے بے ساختہ کہا ’’اللہ ‘‘جس پر سید صاحب نے کہا پھر میری حفاظت بھی وہی کرے گا جب تک زندگی ہے ۔ سید منور حسن سخت قسم کے اصول پسند تھے ایک بار پنجاب کے کسی شہر میں جماعت اسلامی کی کوئی تربیتی نشست تھی ان کا بھی پروگرام رکھا گیا جس میں کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی یہ سخت ناراض ہوئے کہ جو تنظیم وقت کی پابندی نہیںکر سکتی وہ انقلاب کی کیا تیاری کرے گی۔ انہوںنے خطاب کرنے سے انکار کردیاا ور اسٹیج پرآکر کارکنان سے کہا کہ آپ کے کوئی سوالات ہیں تو میں حاضر ہوں آپ پوچھ سکتے ہیں۔سید صاحب کے بے داغ سفید لباس کی طرح انکا کرداربھی اجلا بے داغ اور مثالی تھا۔وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے جب صاحبزادی کی شادی ہوئی بڑے لوگ شریک ہوئے۔ تحائف بھی ملے جس میں طلائی زیورات کے چودہ سیٹ تھے انہوں نے وہ سارے تحائف جماعت اسلامی کے بیت المال میں بھجوا دیئے کہ یہ مجھے جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں۔ ان پرمیرا حق نہیں،اس دور کی سیاست میں ایسے ہیرے جیسے لوگ بھلا کہاں ملیںگے۔سید صاحب اس لحاظ سے ’’بے لحاظ‘‘ تھے کہ وہ رائے دینے اور بات کہنے میں کچھ خیال نہ کرتے تھے ان سے انٹرویو لینا اور انکے منہ میں اپنی بات ڈالنا تو بھول جایئے۔ ایک بڑے نیوز چینل کے میزبان صحافی ان کا انٹرویو لینے پہنچا اور گھما پھرا کر ایک ہی بات ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا انہوں نے ایک دو بار جواب دیا جو ان صاحب کے مطلب کا نہ تھا۔انہوںنے اپنی کوشش جاری رکھی جس پر سید صاحب یہ سوچے بغیر کہ ان کے سامنے ایک جانا مانا صحافی بیٹھا ہے۔ کھڑے ہوگئے اور مائک اتار کر ایک طرف رکھ دیااو ر بار بار درخواست کرنے کے باوجود دوبارہ انٹرویو کے لئے رضامند نہ ہوئے۔ اگرچہ بطور میزبان اپنے مہمانوں کی مہمانداری کی ان کے ساتھ بیٹھے چائے ناشتہ کیا لیکن انٹرویو نہ دیا۔چند برس پہلے جب وہ امیرجماعت اسلامی پاکستان تھے میں نے کسی بات پر ان کے خلاف ایک سخت قسم کا کالم لکھ ڈالا جس پر جماعت اسلامی کے حلقوں میں خاصی ناراضگی ہوئی اور میرے لئے خاصے سخت الفاظ کہے گئے لیکن سید صاحب نے مجھ سے ایک لفظ تک نہ کہا۔ان سے ادارہ نور حق میں بھی کئی ملاقاتیں رہیں آمنا سامنا ہوا وہ اسی بے تکلفی اور شفقت سے ملتے رہے۔ وہ سچ میںشرافت متانت دیانت اور اصول پسندی کی سیاست کا استعارہ تھے افسوس کہ اب نہ رہے۔ کراچی سے سید منور حسن کا جنازہ نہیں اٹھا۔ ملکی سیاست سے شرافت و متانت کا عہد منور اٹھا جاتا ہے: اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں رویئے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے