سچ کو سقراط کی مسند پہ بٹھا دیتا ہے وقت منصور کو سولی پہ چڑھا دیتا ہے ایک دریا میں بنا دیتا ہے رستے کوئی اور پھر ان رستوں کو آپس میں ملا دیتا ہے میرا خیال ہے دنیا کا مشکل ترین سوال یہ ہے کہ سچا کون ہے اور اس کا جواب بھی اتنا ہی دشوار ہے یعنی سچا وہ ہے جو جھوٹ نہ بولے۔جھوٹ اور یوٹرن میں زمیں آسمان کا فرق ہے کہ زمین اوپر چلی جاتی ہے اور آسمان نیچے آ جاتا ہے۔ آپ میری بات پر گھبرائیں نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ دماغ چل گیا ہے اور میں آئول فائول بکنے لگا ہوں۔ چچا غالب نے بھی تو کہا تھا بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ ہائے میرا مافی الضمیر بیان کرنے کو رضی اختر شوق چلے آئے۔ ایسے لگا جیسے وہ عوام کی زبان اپنے لہجے میں بول رہے ہیں: ایک طرف ہیں جاں بلب تارنفس شکستنی بحث چھڑی ہوئی ادھر چارہ گروں کے درمیاں ہائے ہائے طالب علمی کے زمانے کا پڑھا ہوا شعر اب آ کر ہم پر کھل رہا ہے کہ سب در بند ہوتے جا رہے ہیں۔ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے۔ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے۔بات ذرا تلخ ہے مگر ہے حقیقت یا پھر یہ میرا گمان ہے کہ جس طرح بھٹو نے صنعت کا بیڑا غرق کیا تھا کہ کارخانے اور ملیں قومیا کر اپنے چھچھورے کارکنوں کے سپرد کر دیں اور وہ کارخانوں کے شہتیر تک بیچ گئے۔تفصیل میں نہیں جائوں گا اسی طرح اب بھی معیشت کا کباڑا ہو رہا ہے۔ تاجر‘ خاص طور پر چھوٹا تاجر مارا گیا۔ اس لاک ڈائون نے سچ مچ اسے ناک ڈائون کر دیا۔آپ نے خدا کو جان دینی ہے مگر میں یہ پی ٹی آئی کے لیڈروں کی طرح عادتاً محاورہ نہیں بول رہا۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ وہ تاجر جو دکان کا کرایہ دیتا ہے اور کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔ کیا خودکشی کر لے۔ دال روٹی کھائیں‘ بچوں کی فیسیں اور دوسرے اخراجات کہاں سے پورے کریں۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔ آپ سوشل میڈیا پر عام لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کریں۔ لوگ خان صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ ان کی جان چھوڑ دیں۔ آٹا 72روپے کلو ہو گیا چینی 90روپے کو چھو رہی ہیں خود ابھی ماش کی دال لے کر آیا ہوں280روپے کلو، بجلی کے بل ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں گیس کے بل میں ہزاروں میں اور اب ان میں کورونا ٹیکس۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ آپ نہ وفاق بن کر دکھا سکے اور نہ صوبوں کو اپنے ساتھ چلا سکے۔ ہر طرف ایک انارکی کی صورت حال ہے آپ اپنا حالیہ سمارٹ لاک ڈائون کا فیصلہ دیکھ لیں جو پنجاب میں 9دن کے لئے عین عید کے موقع پر لگایا گیا ہے جبکہ تاجر اسی امید پر تھے کہ عید پر کچھ کما لیں گے کہ دال روٹی ہو سکے۔ چلیے مان لیا کہ یہ احتیاط کے لئے کیا گیا مگر اس کو حق بجانب بھی تو ثابت کریں۔ یہ نوازش صرف پنجاب پر کیوں۔ باقی صوبوں میں کاروبار کھلے ہیں بلکہ سندھ والوں نے تو تجارت کی ڈیورشن بھی بڑھا دی ہے۔ پہلی دفعہ پنجاب والوں کو احساس تحفظات ہونے لگا ہے کہ آپ نے پہلے جاری منصوبے بھی بند کروا دیے اورنج ٹرین لاہوریوں کا منہ چڑا رہی ہے کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ پورے پنجاب کے تاجر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ ابھی دیکھ رہا تھا کہ اس احتجاج کے دوران فیصل آباد کا ایک تاجر بھی دل کا دورہ پڑنے پر چل بسا۔ آپ ذہن میں رکھیں کہ تاجر طبقہ بڑا محتاط ہوتا ہے وہ مطالبات لے کر باہر نہیں نکلتا۔ان کے لئے جو صورت حال ہے وہ تنگ آمد بجنگ آمد والی ہے۔ ایک اور بات دیکھیے کہ باقی صوبوں کے مقابلے میں یہاں کورونا کی صورت حال زیادہ قابو میں ہے مثلاً 28جولائی کو ایک بھی شخص نہیں مرا۔ ہاں یہ ہوتا کہ آپ ایس او پیز کی پابندی کرواتے۔ کم از کم اس لاک ڈائون کے لئے آپ تاجروں کو پہلے ہی کوئی اشارہ دے دیتے۔ حیرت ہے کہ آپ اچھا کام بھی برے انداز میں کرتے ہیں۔ بے روزگاری حد سے بڑھ چکی۔ اشاروں پر بھکاریوں کا رش نظر آتا ہے۔ وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ بے روزگاری میں کیا کریں حالانکہ وہ آج کل کے رائج روزگار پر ہی ہیں۔ فیصل عجمی: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا لگتا ہے حالات مزید خراب ہونگے۔ اپوزیشن کے ہاتھ میں سنہری موقع ہے کہ وہ اس ناکام حکومت سے جان چھڑا لیں۔دوسری طرف حکومت خود ہی بلنڈر کرتی جا رہی ہے۔ اب پنجاب کی تاجر تنظیموں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے نیب ترامیم میں ڈیڈ لاک آ گیاہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیب کا عمل سوالیہ بن چکا ہے۔ یہ میں نہیں سپریم کورٹ کہتی ہے کہ نیب صرف متعصب فیصلے کر رہا ہے۔ آپ رانا ثناء اللہ کا کیس دیکھ لیں‘ حالیہ سعد رفیق اور سلمان رفیق والا معاملہ دیکھ لیں۔ سب جگہ حکومت کی پسپائی اور جگ ہنسائی ہوئی۔ حکومت کی غیر سنجیدہ نشانیوں میں سے مراد سعید اکیلا ہی کافی ہے۔ اس کی قرض منہ پر مارنے والی تقریر تو جیدی کا ایک عجوبہ لطیفہ ہے۔ خدا کے لئے کوئی تو اپنا کارنامہ گنوا دیں۔ یکساں نصاب تعلیم کی بات آپ نے بڑی شدو مد سے کی تھی۔آپ تو اردو کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکے جبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عملدرآمد چاہتا ہے۔ الٹا آپ کے وزیر تعلیم نے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دیا ہے۔ کیا خان صاحب اس پر غور کرتے ہیں کہ لوگ انہیں ’’تقریر الدین ایوبی‘‘ لکھنے لگے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو غیر ملکیوں نے یہاں آ کر نوکریاں تلاش کرنا تھیں وہ یہی زلفی وغیرہ ہی تو نہیں ہیں۔ آپ کے ایک وزیر باتدبیر نے پی آئی اے کے پائلٹس کے حوالے سے ایک بیان دے کر ہی پورے ادارے کا ستیا ناس کر دیا۔ ایسے بزجمہر آپ کے پاس خاص تعداد میں ہیں۔ بات پھیلتی جا رہی ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی کے پاس نہ وزڈم ہے نہ وژن‘ابھی میں پی ٹی آئی کے محبوب تبصرہ نگار کے ارشادات سن رہا تھا۔ اس نے اینکر کے سوال کے جواب میں کہا کہ یقینا اگر اس وقت الیکشن ہو جائیں تو ن لیگ پنجاب اور مرکز میں آ جائے گی اور قارئین!یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ہو جائے تو وہ اس سے بھی زیادہ برا ہو گا: سعد تلخی ہے جو مجھ میں وہ کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا