روایت ہے کہ کہ قدیم عربوں میں تین مواقع پر مبارکباد دینے کا رواج تھا۔ پہلا جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا۔ دوسرا جب کسی کی اصیل گھوڑی بچہ دیتی اور تیسرا جب کسی قبیلے میں کوئی قادرالکلام شاعر ابھرتا! گزشتہ کالم میں حضور پاکؐ کی پھپھیوں کے ادبی اور شعری ذوق کا تذکرہ ہوا۔ حضور اکرمؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی موقع محل کی مناسبت سے شعر کہتے اور عمدہ شعری ذوق رکھتے۔ تاریخی روایت ہے کہ جب سرکار دوعالمؐ کی پیدائش ہوئی آپؐ کے دادا اپنے جلیل القدر پوتے کو گود میں اٹھا کر کعبہ لے آئے وہاں پہ اشعار پڑھے’’ہر طرح کی حمدو ثنا اس خدا کیلئے جس نے مجھے یہ پاک دامن لڑکا عنایت فرمایا ہے۔ یہ وہ لڑکا ہے کہ گہوارہ میں ہی تمام لڑکوں پر سردار ہو گیا اس کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتا ہوں‘‘ نبی اکرمؐ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہؓ بھی ایک نکھرے ہوئے ادبی ذوق کی حامل خاتون تھیں اور اشعار کہتی تھیں۔ اپنے شوہر حضرت عبداللہ کی وفات پر انہوں نے ایک دلسوز مرثیہ کہا ’’آج وادی بطحا کے پہلو سے بنی ہاشم کے سپوت کا نشان مٹ گیا۔ جس شب لوگ ان کا جنازہ لے کر چلے تو ہجوم کی وجہ سے ساتھیوں کا چلنا مشکل ہو گیا‘‘ یہ بھی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت بی بی آمنہؓ نے اپنے جلیل القدر فرزند کو جب دایہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے سپرد کرکے ساتھ رخصت کیا تو یہ دعائیہ اشعار پڑھے۔ جسم پر جو شر گزرتے ہیں، جو بدی و خستگی لاحق ہوتی ہے، جو آفات و امراض پیش ہوتے ہیں ان سب سے میں اس بچے کو خدائے ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوں۔ میں اس وقت تک کیلئے اس کو خدا کی پناہ میں دیتی ہوں کہ اسے امر حلال کا حامل اور غلاموں کے ساتھ نیکی کرتے دیکھ لوں۔! اور صرف غلاموں کے ساتھ نہیں بلکہ یہ بھی دیکھوں کہ ان کے علاوہ دوسرے ادنیٰ درجے کے لوگوں کے ساتھ بھی نیکی کر رہا ہے‘‘۔ عربی زبان سے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے ان اشعار کی تاثیر ۔ گہرائی اور معنویت پچاس فیصد بھی اردو زبان میں منتقل نہیں ہو سکی کیونکہ عربی میں ایسی فصیح و بلیغ زبان ہے کہ الفاظ کے تہہ دار معنے رکھتی ہے۔ کسی اور زبان میں اس تہہ دار معنویت کو منتقل کرنا کافی مشکل ہے۔ کتاب کے مصنف شریں زادہ خدوخیل نے یہ کتاب کئی سالوں کی تحقیق کے بعد مرتب کی ہے۔ اس کتاب کے 13 ابواب ہیں۔ پہلا باب دیباچے کی صورت میںہے جس کا عنوان ہے۔ میری لاج رکھ لے میرے خدا، جس میں وہ اس کتاب کو مرتب کرنے کا ایمان افروز پس منظر بیان کرتے ہیں۔ کچھ قابل ذکر ابواب کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔ دور جاہلیت میں عربی ادب، رسول اکرمؐ کے خاندان کا ادبی پس منظر۔ کلام الملوک۔ ملوک الکلام، رسول اکرمؐ اور شعرو شاعری۔ آپؐ کی شان میں کہے گئے قصیدے، میدان جہاد میں رسول اکرم کا ادبی محاذ۔ وصال النبیؐ پر صحابہؓ کرام اور صحابیاتؓ کے مرثیے۔ عہد نبوی کا ادبی منظرنامہ۔ کتاب کے آخر میں حوالہ جات کی بھی پوری ایک فہرست دی گئی ہے۔ کتاب اللہ میں فرمایا گیا کہ ہم نے انؐ کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ ہی انؐ کے کرنے کا کام ہے‘‘ آپؐ پیغمبرؐ خدا تھے اور شاعری کرنا آپؐ کے شایان شان نہ تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ آپؐ کا مزاج بھی شاعرانہ نہ تھا اور نہ ہی شعر آپؐ کو مکمل یاد تھے۔ دوران گفتگو بھی کسی شاعر کا اچھا شعر زبان مبارک پر آتا تو غیر موزوں پڑھ دیتے یا الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا۔ نہایت اعلیٰ شعری ذوق مگر آپ میں پایا جاتا تھا۔ اچھا شعر آپؐ سن کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ قدرت کی طرف سے آپؐ کو معجزبیانی عطا کی گئی تھی۔ گفتگو فرماتے ہوئے ایسے فصیح و بلیغ جملے زبان مبارک سے نکلتے کہ شاعری کی تمام فصاحت و بلاغت اس پر قربان ہو جائے۔ پہلے نعت گو شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ رسول خدا کے بہت چہیتے تھے آپؐ اکثر حسان بن ثابتؓ سے فرمائش کرکے اشعار سنتے۔ مسجد نبوی میں نماز فجر کی ادائیگی اور تسبیحات کے بعد ایسی ہی ایک محفل تھی۔ حضرت حسان بن ثابت اشعار سنا رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سوال کیا۔ شعر بھی اور قرآن بھی۔؟ تو آپؐ نے فرمایا۔ ہاں کبھی یہ اور کبھی وہ شعری ذوق عربوں کی گھٹی میں پڑا تھا۔ آپؐ نے ایک بار فرمایا کہ عرب اس وقت تک شعر ترک نہیں کریں گے جب تک اونٹنیاں اپنے بچوں کیلئے شفقت و اشتیاق کو نہیں چھوڑ دیتیں اور یہ دونوں باتیں ناممکنات میں سے ہیں۔ مفید اور پاکیزہ اشعار کو آپؐ نے ہمیشہ پسند فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا ’’شعر بھی ایک کلام ہی ہے چنانچہ کلام میں بعض تو خبیث اور نقصان زدہ ہوتا ہے جبکہ بعض طیب اور پاکیزہ۔ عہد نبوی کے شعرا میں سب سے زیادہ تذکرہ حضرت حسانؓ بن ثابت کا ہوتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق جنگ بدر کے متعلق سب سے زیادہ اشعار حضرت حسانؓ بن ثابت نے کہے۔ ان کے اشعار کی کاٹ شمشیر و سناں سے زیادہ گہری اور تڑپا دینے والی تھی۔ عہد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت کے علاوہ کعب بنؓ مالک اور عبداللہ بن رواحہؓ ایسے شاعر ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنی معجزبیانی اور شعردانی سے ادبی محاذ کو گرمائے رکھا۔ اس کتاب کا گیارھواں باب ہے۔ خودبارگاہ نبویؐ میں۔ اس میں تحریر ہے کہ 10ھجری کو عام الوفود کا درجہ حاصل ہے جب تمام عرب ہدایت اسلام کی روشنی سے فیض یاب ہو چکا تھا۔ دورو نزدیک سے عربوں کے قبائل وفود کی صورت بارگاہ نبویؐ میں حاضری دیتے اور مشرف بہ اسلام ہوتے۔ حاضری کے وقت روایت تھی کہ قبیلے کا کوئی بڑا شاعر آپؐ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر اشعار پیش کرتا۔ بعض اوقات ان اشعار کا جواب حضرت حسان بن ثابت اپنے اشعار سے ادا کرتے۔ 5 ھجری کو قبیلہ حضرموت کا وفد بارگاہ رسولؐ میں حاضر ہوتا ہے تو قبیلے کا ایک شخص کلیب بن اسد کیا کمال کے اشعار رسول اقدس کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ سواری مجھے ایسے میدانوں سے لا رہی ہے جہاں تالابوں کے گھاٹ بھی گرد آلود ہیں۔ اونٹ جب تھک جائیں تو ان کا گردوغبار اور بڑھ جائے۔ اسی دشت نوردی میں دو مہینے گزر گئے۔ ندامت کے ساتھ سفر کر رہا ہوں اور اس سفر سے اللہ کے اجروثواب کی امید رکھتا ہوں۔ آپ وہی نبی ہیں جن کی ہمیں خبر دی جا رہی تھی۔ ہمیں توریت اور سب پیغمبروں نے آپ کی بشارت دی! (ختم شد)