"Money Laundering" اور دوسرے کئی مقدمات میں سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمدشہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور عرصہ دراز سے لندن میں مقیم ( ایم ۔ کیو ۔ ایم ) کے بانی الطاف حسین کی گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہُوئے وزیراعظم جناب عمران خان نے کہا کہ ’’ بڑی گرفتاریاں ہُوئی ہیں ، اللہ تعالیٰ کو پاکستان پر رحم آگیا ہے ۔ جو لوگ پکڑے جا رہے ہیں اُس سے ہمارے بیانیے کو تقویت ملے گی کہ مہذب معاشروں میں چھوٹے ، بڑوں کے لئے الگ قانون نہیں ہوتے ‘‘۔ جنابِ عمران خان ! غور کریں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کو تو ، تقریباً 2 سال پہلے ہی پاکستان پر رحم آگیا تھا جب 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادقؔ اور امینؔ نہ (ہونے ) پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دِیا تھا ، جس پر 30جولائی کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب ‘‘۔ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ میرے کالم کا آخری پیرا یہ تھا کہ ’’کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ (Judicial Revolution) کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لُوٹنے والا صِرف شریف خانداؔن ہی نہیں بلکہ آصف زردؔاری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ 10 جون 2019ء کو زیادہ عرصہ نہیں ہُوا کہ ’’ جب خود کو ’’ عقلِ اوّل‘‘ (جبرئیل ؑ ) سمجھنے والے آصف علی زرداری نہ صِرف ’’عدالتی انقلاب‘‘ کے "Law Roller" کی زد میں آ گئے ہیں ‘‘۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے جنابِ زرداری کا نام بڑے ادب و احترام سے پکارتے ہُوئے 10 جون ہی کو قومی اسمبلی کے ایوان میں ، سپیکر صاحب سے اُن کے "Production Order" ۔ کی بار بار درخواست کی ،جس سے ایوان میں موجود جنابِ زرداری کی ’’ پی ۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے منتخب ارکان کو بڑی ’’ہلّہ شیری ‘‘ ملی اور اُنہیں احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا موقع ملا ۔ 10 جون ہی کو شام سے لے کر رات گئے تک مختلف نیوز چینلز پر خادمِ اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے عوامی جلسوں میں میاں شہباز شریف کے اچھل کود کے پرانے مناظر دِکھائے گئے ، پوری دُنیا نے اُنہیں چنگھاڑتے ہُوئے دیکھا اور سُنا کہ ’’ مَیں آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اُس سے قوم کی لُوٹی ہُوئی قومی دولت ضرور وصول کروں گا اور اُسے لاڑکانہ، کراچی ، پشاور اور لاہور کی سڑوں پر گھسیٹوں گا‘‘لیکن، پھر حالات بدل گئے اور 3 جولائی 2014ء کو قومی اخبارات میں جنابِ آصف زرداری کا یہ بیان شائع ہُوا کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کے خاندان اور بھٹو (زرداری ) خاندان کی دوستی نسلوں تک چلے گی‘‘۔ اِس پر مَیں نے 5 جولائی کو ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’اگر مستقبل کے دونوں لیڈروں بلاول بھٹو زرداری اور حمزہ شہباز کی پارٹیاں’’ اِکّ مِکّ‘‘ ہو جائیں تو، اُن کی پارٹی کا نام ہونا چاہیے ۔ ’’پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) ‘‘ ۔زرداری صاحب کے ساتھ ہی حمزہ شہباز کی گرفتاری اور دونوں پارٹیوں کے چھوٹے / بڑے لیڈروں میں ہم آہنگی سے میری پیش گوئی صحیح ثابت ہونے جا رہی ہے ۔ الطاف حسین بھی گرفتار معزز قارئین!۔ 11 جون 2019ء کی صبح لندن میں ’’ ایم ۔ کیو ۔ ایم‘‘ ( مہاجر قومی موومنٹ) کے بانی الطاف حسین کو بھی "Scotland Yard" نے گرفتار کرلِیا۔ "F.I.A" نے اُن کے خلاف پاکستان مخالف تقاریر کرنے کا مقدمہ تیار کر کے برطانیہ بھیجا تھا اور حکومت سے کارروائی کی استدعا کی تھی۔ یاد رہے کہ ’’ خُود کو اور اپنی ’’ ایم ۔ کیو ۔ ایم‘‘ کے لیڈروںکو ، ’’پاکستان بنانے والوں کی اولاد کا دعویٰ ‘‘کرنے والے الطاف حسین نے 22 اگست 2016ء کو لندن سے "VideoLink" کے ذریعے کراچی میں اپنے عقیدت مند لڑکوں اور لڑکیوں سے پاکستان کے خلاف کے نعرے لگوائے تھے ۔ اور جب کراچی میں ’’ ایم ۔ کیو ۔ ایم ‘‘کے لیڈروں کا دبائو بڑھا تو، الطاف حسین نے معافی بھی مانگ لی تھی لیکن، دوسرے روز اُنہوں نے امریکہ میں مقیم اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہُوئے وہی انداز اختیار کِیا تھا ۔ اِس پر 24 اگست 2016ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ الطاف حسین کا خُود کش حملہ!‘‘۔ اِس سے قبل 26 جون 2013ء کو بھی اپنے "VideoLink" خطاب میں الطاف حسین نے اِسی طرح نہ صِرف پاکستان بلکہ ’’مسلم اُمّہ‘‘ سے بھی غدّاری کے مرتکب ہُوئے تھے ۔ "Titanic" ڈوبنے کی ۔بد فالی!‘‘ اپنے اُس خطاب میں الطاف حسین نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان کی صورت حال "Titanic" جہاز جیسی ہے اور جہاز کے "Deck" (عرشے) پر بیٹھے لوگ پاکستان کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ ’’ مسلم اُمّہ ‘‘ کا "Titanic" ڈُوب رہا ہے ۔ اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو ، جہاز ڈوب جائے گا ‘‘۔ اِس پر 29 جون 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ "Titanic" ڈوبنے کی ۔بد فالی!‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’الطاف حسین ! ۔ آپ کے نامزد ڈاکٹر عشرت اُلعباد ابھی تک گورنر سندھ ہیں ۔ اگر آپ کو پاکستان کی فکر ہے اور آپ اِس "Titanic" کو واقعی بچانا چاہتے ہیں تو، وطن واپس آ کر بچائیں ،، ’’دَما دَم مست قلندر‘‘ معزز قارئین!۔ 1971ء کے آخری دِنوں میں ’’ نواسۂ بھٹو‘‘ نے اپنے نانا جنابِ بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد دِلاتے ہُوئے اور اپنے والد آصف علی زرداری کی بہادری کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ ہم پھانسی یا دھماکوں یا گرفتاری سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور اب ’’ دَما دَم مست قلندر ہوگا‘‘۔ معزز قارئین!۔ کیوں نہ مَیں چند لفظوں میں ’’ دَما دَم مست قلندر‘‘ کی تاریخ بیان کردوں ؟ ۔ ہُوا یوں کہ’’ 1971ء کے آخری دِنوں میں مشرقی پاکستان پر پاک فوج کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب اُلرحمن کی ’’عوامی لیگ ‘‘کی ذیلی تنظیم ’’ مکتی باہنی‘‘ ۔ بھارتی فوج کی سرپرستی کی کمان میں محب وطن پاکستانیوں کا قتل عا م کر رہی تھی جب، ذوالفقار علی بھٹو نے صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے عوامی جمہوریہ چین کے دورے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ اب دَما دَم مست قلندر ہوگا‘‘۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یہ سمجھے کہ ’’ شاید مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لئے امریکہ کا ساتواں ؔبحری بیڑا پہنچنے والا ہے؟‘‘ لیکن پاکستان دولخت ہوگیا اور جنابِ بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو (بچے کھچے پاکستان بقول بھٹو صاحب کے نئے پاکستان ) کے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لِیا۔ اُس کے بعد جنابِ ذوالفقار علی بھٹو ، وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے کتنی بار ’’دَما دَم مست قلندر‘‘ کہا اور کِیا ۔ سبھی سیّانے لوگ جانتے ہیں ؟۔ مجھے اب بھی یہی یقین ہے کہ ’’ اِنشاء اللہ 28 جولائی 2017ء کو شروع ہونے والے ’’ عدالتی انقلاب‘‘ کا "Law Roller" تیز رفتاری سے چلتا رہے گا ؟ اور اُس کے مقابلے میں کسی قسم کے ’’ دَما دَم مست قلندر ‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کو جھوٹی / سچی بیماریوں کی آڑ میں بیرون ملک جانے کی اجازت مل سکے گی ؟۔