معزز قارئین!۔ آج 31 جولائی ہے آج سے دو سال اور تین دِن پہلے (28 جولائی 2017ء کو ) جب، (اُن دِنوں)چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے مقرر کردہ ، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت (اُن دِنوں ) وزیراعظم میاں نواز شریف کو صادق ؔاور امین ؔنہ (ہونے ) پر تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا تو،30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا کہ ’’سلام!۔ ’’عدالتی انقلاب‘‘ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں لیکن ، بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ 17 جنوری 2019ء تک میاں ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس کے عہدے پرفائز رہے اور اُن کی سربراہی میں ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کا "Law Roller" تیزی سے چلتا رہا اور آصف زرداری اور اُس قبیل کے کئی اور گروپ بھی قانون کے شکنجے میں آگئے ،بہت سے جیل میں ہیں۔ 25 جولائی 2018ء کو عام انتخابات ہُوئے۔ جناب عارف علوی صدرِ پاکستان ، اورجنابِ عمران خان وزیراعظم منتخب ہُوئے اور چاروں صوبوں میں نئے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی تجدید ہُوئی اور ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بھی۔ معزز قارئین!۔ اِس سے پہلے مَیں نے ’’ مملکتِ خُدا داد پاکستان میں ۔ ججوں کی حکومت؟‘‘ کے عنوان سے اپنے 23 جولائی 2017ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ بائبل کے عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں ایک باب ہے۔ ’’Book of Judges‘‘ (قاضیوں کی کتاب) لِکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ’’Joshua‘‘ (حضرت یوشعؑ) سے لے کر ’’Samuel‘‘ (حضرت سموئل ؑ) تک تقریباً چار سو سال تک بنی اسرائیل پر ججوں ( قبائلی بزرگوں ) کی حکومت رہی۔ اُس دَور میں ججوں کے سِوا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا۔ 2234 قبل از مسیح بنی اسرائیل نے خواہش کی کہ ’’ قُرب و جوار کی دیگر اقوام کی طرح وہ بھی کسی بادشاہ کے تابع فرمان بن کر رہیں۔ خُدا نے اُن کی یہ آرزو پوری کردِی۔ (جج اور نبی حضرت سموئل ؑنے بِن یامین ؑکی اولاد میں سے ’’Saul‘‘ (حضرت سائول ؑ) کو بادشاہ مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد حضرت دائود، حضرت سلیمان ؑ اور دوسرے بادشاہ تھے‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صِرف ’’Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے دو خیر خواہ ستون ہیں ۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ’’ یا رب اُلعالمِین! مملکت خدادادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردے!‘‘۔ انتخابات کے نتیجے میں وفاقی اور چاروں صوبوں میں قائم حکومتیں ۔ مفلوک اُلحال عوام کی بھلائی کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکیں۔ اِس میں ریاست پاکستان کے دو خیر خواہ ستونوں "Judiciary"اور "Media" کا کوئی قصور نہیں ۔ قصور تو، اُن سابقہ حکمرانوں اور اُن کے اتحادیوں کا ہے جو، ہمارے پیارے پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے اور ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ، جس سے ’’نام نہاد جمہوریت ‘‘ بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگرچہ اِس سے مفلوک اُلحال جمہور کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن، قائداعظمؒ کے پاکستان کا کیا ہوگا؟۔ عام طورپر جمہوریت بدترین سے بدترین ہو جائے تو، پاک فوج اقتدار سنبھال لیتی ہے لیکن، ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کے ساتھی پاکستان میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مصورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے اپنے دَور کے ’’سیاست کاروں ‘‘ کے بارے میں اپنی نظم ’’ سیاسی پیشوا‘‘ میں جوکچھ کہا تھا وہ، آج کے اُن ’’سیاسی پیشوائوں ‘‘ پر صادق آتی ہے جو، قانون کے مطابق ’’ سیاست کاروں ‘‘ کے بجائے ’’ جرائم کاروں‘‘ کا روپ دھارے ہُوئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں لوٹ مار کے علاوہ اور کچھ نہیں کِیا۔ اپنی نظم ’’سیاسی پیشوا ‘‘ میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ … امید کیا ہے ؟سیاست کے پیشوائوں سے! یہ خاکباز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند! …O… ہمیشہ مور و مگس پر ،نگاہ ہے اِن کی! جہاں میں ہے ،صفتِ عنکبوت اِن کی کمند! …O… ’’شارح اقبال ‘‘ مولانا غلام رسول مہرؒ نے اِس نظم کی تفسیر یوں کی ہے کہ ’’ (1) یہ آج کل جن لوگوں نے سیاست کی پیشوائی سنبھال رکھی ہے ۔ اُن سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟۔ یہ لوگ تو مٹی سے کھیلنے والے ہیں اور مٹی ہی سے اِن کا تعلق ہے ۔ گویا ان کے خیالات بھی پست ہیں اور یہ پستی ہی کو پسند کرتے ہیں ۔ (2) یہ اِن کی نگاہیں ہمیشہ چیونٹیوں اور مکھیوں پر رہتی ہے اور دُنیا میں اِن کی کمند مکڑی کے جالے کی سی ہے ‘‘۔ ’’لانگ مارچ کی سیاست کاری‘‘ معزز قارئین!۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین ’’مائوزے تنگ ‘‘ (Mao Zedong)کی قیادت میں (1934ئ۔ 1935ء )میں ہونے والے لانگ مارچ میں (بقول مائوزے تنگ) اُن کے ساتھ ، نظریات سے مسلح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ سُرخ فوج کے جوان اور معمر لوگ چل رہے تھے ۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے زندگی میں دولت جمع نہیں کی تھی ، جب اُن کا انتقال ہُوا تو اُنہوں نے ترکے میں 6 جوڑے کپڑے (Uniform)، ایک لائبریری اور بینک میں ایک ہزار سے بھی کم ڈالرز چھوڑے۔ ’’ بانی ٔ پاکستان‘‘ حضرت قائداعظم ؒ نے جب گورنر جنرل کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو، آپؒ نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھالیکن، ہندوئوں کی سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو شری موہن داس کرم چند گاندھی ؔ کے چرنوں میں بیٹھنے والے کانگریسی مولویوں نے قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ دِیا اور ناکام رہے۔ اگست کے بعد اکتوبر 2019ء میں فضل اُلرحمن صاحب کی قیادت میں دینی مدرسوں کے طلبہ کو اگلی صفوں میں کھڑا کر کے اُن کے پیچھے ہر قسم کے جرائم میں ملوث ، سیاست کاروں کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا؟لیکن، فضل اُلرحمن صاحب ناکام ہو کر اب ایک بہت ہی خوفناک کھیل کھیل رہے ہیں ؟۔ ایسا کھیل اُن کے والدِ (مرحوم) مفتی محمود نے بھی نہیں کھیلا تھا؟۔ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام نہ صِرف اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے "Law Roller" کی طرف دیکھ رہے ہیں ، بلکہ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف بھی ۔ بعض اوقات پاک فوج کو ’’ ریاست کا پانچواں ستون‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اللہ کرے کہ ’’ پاکستان کے سارے ستون سلامت رہیںاور جرائم کار خود ہی اپنے جال میں پھنس جائیں ۔ آمین!‘‘۔