معزز قارئین! 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ "62-F-7" کے تحت صادقؔ اور امین ؔنہ ہونے پر تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا اور"N.A.B" کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف 6 ہفتے میں ریفرنس دائر کرنے اور احتساب عدالت کو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دِیا تھا لیکن، نیب زدہ شریف خاندان کے وُکلاء نے کچھ اِس طرح کے قانونی دائو پیچ کھیلے کہ اُن کے موکلوں کے خلاف فیصلوں کے دِن  (شاعروں کی اصطلاح میں ) طولِ شبِ فراق سے بھی زیادہ لمبے ہوگئے!۔ 

ہر طرف نااہل وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے خلاف ’’ سارا ٹبّر چور ہے !‘‘ کے نعروں کے باوجود ۔ وفاق میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومتوںاور تمام تر حکومتوں کے وسائل پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی میں صرف ہُوئے ۔ ججوں کے فیصلوں کا عام جلسوں میں مذاق اُڑاتے ہُوئے ۔’’ ووٹ کو عِزّت دو اور ووٹر ز کو عِزّت دو !‘‘کا نعرہ ایجاد کِیا گیا ۔ جِس شخص نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے ہر دَور میں ’’ووٹ ‘‘ (عوام کو) عِزّت نہیں دِی اور اُنہیں ’’مفلوک و اُلحالی ‘‘ کے آخری درجے تک پہنچا یا۔ اُس سے اور اُس کے ٹبّر سے خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے ؟۔ 

جج صاحبان کی طرف سے نواز شریف کو نااہل قرار دِیا گیا تو، 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا کہ ’’ سلام! ’’ عدالتی انقلاب‘‘ تو شروع ہوگیا؟‘‘ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ پیارے پاکستان میں بڑی آہستگی سے "’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں اور اب یقین کیا جانا چاہیے کہ ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ شاعر نے کہا تھا کہ …

رنگِ محفل چاہتا ہے ، اِک مکمّل انقلاب!

چند شُعلوں کے بھڑکنے سے ، سحر ہوتی نہیں !

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ’’ قائدِ عدالتی انقلاب‘‘ ہیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سارے جج صاحبان اپنی اپنی جگہ عدالتی انقلاب کے علمبردار۔ گویا…

ہر فرد ہے ، مِلّت کے مقدر کا ستارہ! 

یوں تو کئی جج صاحبان نے ، عوامی مفاد میں بہت سے فیصلے کئے لیکن،  یہ سعادت لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ۔ اے ۔ ملک کو حاصل ہُوئی کہ جنہوں، نے 2018ء کے عام انتخابات میں ( امیدوارانِ قومی اسمبلی کے کاغذاتِ نامزدگی کی بنیاد پر ) اُن کی آئین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت چھان پھٹک کی ۔ اِس سلسلے میں قلم قبیلہ کے ممتاز رُکن حبیب اکرم اور اُن کے وکیل سعد رسول ایڈووکیٹ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دے دِی۔دروازہ کھل گیا اور ایسا کھلا کہ قومی اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کا بھی پول کُھل گیا۔ 

یکم جون کو جسٹس عائشہ ۔ اے ۔ ملک ، فیصلہ میڈیا کی زینت بنا تو پتہ چلا کہ ’’ نااہل وزیراعظم نواز شریف کے (صدر جنرل پرویز مشرف کی یادگار) وزیر قانون زاہد حامد کو آڑ بنا کر مسلم لیگ (ن) نے اپنی حریف اور حلیف سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی ( جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) اور فاٹا کے بعض ارکان پر مشتمل پارلیمانی پارٹیوں پر مشتمل ارکان کی ’’ملی بھگت ‘‘ سے امیدواران کے کاغذاتِ نامزدگی میں تبدیلی کرلی۔ کاغذاتِ نامزدگی میں کالم نمبر ایک میں سے وہ خانہ نکال دِیا گیا جِس میں امیدوار سے دُوہری شہریت اور پاسپورٹس کی تعداد سے متعلق سوال کِیا جاسکتا تھا اور کالم نمبر دو کا وہ خانہ نکال دِیا گیا جِس میں پوچھا گیا تھا کہ ’’ امیدوار کا این۔ ٹی ۔ این نمبر کیا ہے اور گذشتہ تین سال میں اُس نے کتنا انکم ٹیکس ادا کِیا؟‘‘۔

کالم نمبر تین کے خانے میں پوچھا گیا تھا کہ ’’ امیدوار کے خلاف کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہے یا نہیں؟۔ ’’یہ خانہ نکال دِیا گیا (بصورت دیگر امیدوار کا خانہ خراب ہو جاتا) ۔ کالم نمبر چار کا وہ خانہ بھی غائب کردِیا گیا کہ ’’امیدوار کا پیشہ کیا ہے؟ اور تعلیم کتنی ہے؟‘‘ ۔ کالم نمبر پانچ کا وہ خانہ بھی ختم کردِیا گیا کہ ، جِس میں پوچھا گیا تھا کہ ’’ امیدوار اپنے بیوی ، بچوں کے علاوہ اور کِس کِس کا کفیل ہے؟‘‘۔ کالم نمبر چھ میں سے امیدوار سے اُس کے اثاثوں سے متعلق سوال بھی ختم کردِیا گیا تھا۔

معزز قارئین!۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ ’’ عام جلسوں میں ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے والے ارکانِ قومی اسمبلی تو، ایک دوسرے کے ’’ بھائی بند‘‘ نکلے ۔ ایک دوسرے کو پاک ، صاف ، نیک کردار اور دودھ کے دُھلے ثابت کرنے پر تُلے ہُوئے ؟۔ ثابت ہُوا کہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تو، ایک دوسرے کے محافظ ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قابل احترام؟ ۔اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا کہ …

کرتے ہیں ، کپڑے پہن کر ، احترامِ مُک مُکا!

سارے ننگے ہیں ، اکٹھے ، در حمامِ مُک مُکا!

(پس نوشت: سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا)

…O…

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ’’ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ’’ عام انتخابات 25 جولائی ہی کو ہونگے‘‘ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک نے اپنی حکومت کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کی ہدایت کردِی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ، موصوف کو تو، صحیح وقت انتخابات کرانے کا فریضہ سونپا گیا ہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا مؤقف بہت دلچسپ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں قومی اسمبلی کا "Custodian" ( مَتولّی ، منتظم ، نگران )ہُوں اِس لئے مَیں خُود لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کروں گا ‘‘۔ یہ سپیکر صاحب کا حق ہے۔ یوں بھی موصوف کشمیری شیخ ہونے کے ناتے ، کشمیر نژاد میاں نواز شریف کے بھی ایاز صادق ؔہیں۔ ممکن ہے امین ؔبھی ہوں؟۔ 

برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف نے اپنے 3 جون کے کالم ’’ طلوع‘‘ میں امیدواران ِ قومی اسمبلی کے کاغذات نامزدگی میں ترمیم کو ’’ ابلیسی چال‘‘ کا عنوان دے کر لِکھا ہے کہ ’’ 25 جولائی کی تاریخ مُقّدس ہے، مگر آئین ، قانون، عوامی مفاد ، قومی امنگیں؟ ۔میرا خیال ہے کہ ’’ سیّد ارشاد احمد عارف نے علاّمہ اقبالؒ کی مشہور نظم ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ ضرور پڑھی ہوگی۔ جِس میں ابلیس کا ایک مُشیرؔ ۔ اپنے "Boss" سے عرض کرتا ہے کہ …

اِس میں کیا شک ہے کہ ،مُحکم ہے یہ ابلیسی نظام!

پُختہ تر اِس سے ہُوئے ،خُوئے غلامی میں عوام!

…O…

آرزو، اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں!

ہو کہیں پیدا تو، مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام!

دراصل ہمارے پیارے پاکستان میں ، عرصۂ دراز سے ’’بدترین جمہوریت ‘‘ کا دور دورہ ہے ۔ ہمارے اکثر سیاستدان (اور سیاسی مولوی بھی ) اکثر کسی مغربی مُفکر کا یہ مقولہ دوہرایا کرتے ہیں کہ’’ بدترین جمہوریت ۔ بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے! ‘‘۔ اپنے دَور میں ’’مصوّر پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے ’’ خوابِ گاہِ سرور کائناتؐ  ‘‘ پر روتے ہُوئے ایک ’’شوریدہ ‘‘  (دیوانہ۔ عاشق ) کی طرف سے کہا تھا کہ …

غضب ہے یہ ،’’ مُرشدانِ خُود بیں‘‘ خُدا تیری قوم کو بچائے!

بگاڑ کر تیرے مسلموں کو ، یہ اپنی عِزّت بنا رہے ہیں!

معزز قارئین! اگرچہ 28 جولائی 2017ء سے پاکستان میں ’’ عدالتی انقلاب‘‘ جاری ہے لیکن، امیدوارانِ قومی اسمبلی کی عزّت ؟ کیا کیا گُل کھلائے گی؟۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا؟۔