لوگ شہادت دینے سے کیوں گریزاں اور کتراتے ہیں۔ عدم تحفظ اور خجّل خواری یہ دو باتیں ہی کافی ہیں۔ ایسے ماحول میں کون رضا کارانہ گواہ کے طور پر آگے آئے گا۔ یہی ہمارے نظام انصاف کا المیہ ہے۔ ایسے میں تو صرف استاد گلو جیسے گواہ ہی میسر آ سکتے ہیں۔ استاد گلو کا قصہ ہمارے بڑے ہی محترم استاد جناب شیخ امتیاز علی پرنسپل یونیورسٹی لا ء کالج جو ہمیں قانون شہادت پڑھایا کرتے تھے۔ یہ قصہ بڑے مزے سے سناتے تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ استاد گلو قیام پاکستان سے قبل لاہور کی عدالتوں کا ایک دلچسپ کردار تھا۔ وہ پیشہ ور گواہ تھا۔ اور حسب ضرورت کوئی بھی فریق اسے کسی بھی مقدمہ میں اپنی طرف سے پیش کر سکتا تھا۔ ایک روز لاہور کی ایک سول کورٹ میں وراثت کے جھگڑے کا مقدمہ زیر سماعت تھا اور مدعی فریق کے پاس گواہ نہیں تھے۔ عدالت دعویٰ خارج کرنے جا رہی تھی کہ وکیل مدعی نے تھوڑی سی مہلت مانگی کہ آج ہی گواہ پیش کر دیے جائیں گے۔ اور فوری طور پر استاد گلو سے رابطہ کیا وہ عدالتی احاطہ میں موجود تھا۔ اب وقت بہت کم تھا۔ اسلئے وکیل صاحب استاد گلو کو مقدمہ کی بابت پوری طرح بریف نہ کر سکے اور سرسری سی بات کی۔ اس دوران عدالت سے دوبارہ آواز پڑ گئی اور استاد گلو نے عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہو کر شہادت دینی شروع کر دی۔ اب مخالف وکیل کو پوری طرح اندازہ تھا کہ استاد گلو کو اس مقدمہ کے واقعات اور متوفی جسکی وراثت کا جھگڑا تھا کی بابت کسی بات کا علم نہ ہے۔ لہذا آج جرح میں استاد جی کے پرخچے اڑا دوں گا۔ خیر اب جرح کا آغاز ہوتا ہے۔ وکیل صاحب۔استاد گلو سے آپ متوفی کو کب سے جانتے ہیں۔استاد گلو۔ کافی عرصہ سے۔ وکیل۔متوفی کی عمر کتنی تھی۔ استاد ۔دیکھنے میں جوان لگتا تھا۔ ویسے کافی عمر تھی۔وکیل۔ متوفی باریش تھا یا کلین شیو۔استاد ۔متوفی بڑا موجی آدمی تھا کہ کبھی ایک مہینہ داڑھی رکھ لیتا تھا اور کبھی کلین شیو نظر آتا تھا۔ کئی دفعہ ہم بھی اس کو پہچان نہیں پاتے تھے۔وکیل۔متوفی کس زبان میں دستخط کرتا تھا۔استاد۔وہ انگریزی میں بھی اردو میں بھی اور کئی دفعہ انگوٹھابھی لگا دیتا تھا۔وکیل۔تم نے انکے جنازہ میں شرکت کی۔اسکی تدفین کس قبرستان میں ہوئی۔استاد۔ اسکی موت والے دن میں شہر سے باہر تھا البتہ اسکی قل خوانی میں شریک ہوا تھا۔وکیل ۔اچھا آخری سوال یہ بتاؤ کہ وہ تمہارا دوست تھا آخر وہ کس بیماری سے مرا۔ استاد گلو۔اسکی قل خوانی میں ہر شخص یہ بات کر رہا تھا کہ دیکھو ڈاکٹروں کو آخری وقت تک بھی اصل بیماری کا پتہ نہیں چل سکا۔ یقین مانیں ہماری عدالتوں میں روزانہ بے شمار استاد گلو پیش ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرہ کی اخلاقی گراوٹ اور خدائی احکامات سے انحراف اور معمولی فائدے کیلئے سچ میں جھوٹ کی آمیزش اور یہ تمام باتیں ہمارے جوڈیشل سسٹم میں بر وقت اور مبنی بر انصاف فیصلوں میں رکاوٹ ہیں۔ جس کے ذمہ داران میں ہمارا معاشرہ، ناقص طریقہ تفتیش اورپیچ دار عدالتی طریقہ کار بھی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی میں بر وقت انصاف ، تیز انصاف، یا حقیقی انصاف اہمیت نہیں رکھتا بلکہ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے۔ کہ انصاف وہی ہے جو میرے حق میں ہوا ہے۔ جو میرے خلاف فیصلہ ہوا میں اسے انصاف تصور ہی نہیں کرتا۔ ان حالات میں ہماری عدالتیں جو دو جھوٹوں میں سے ایک سچ تلاش کرنے کی کاوش میں سرگرداں ہوتی ہیں۔ انہیں فیصلہ کے وقت فریقین مقدمہ کو مطمئن کرنے کا جاں گسْل مرحلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ جب معاشرہ سے اخلاقی قدریں ختم ہو جائیں تو انصاف کا تصور بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ دوران وکالت اور سروس کے آغاز میں ایسے بے شمار پروفیشنل وکلاء موجود تھے۔کہ جب بھری عدالت میں انکے خلاف فیصلہ سنایا جاتا تو نہایت احترام سے سر جھکا کر عدالت کا شکریہ ادا کرتے اور باہر نکل جاتے۔ پھر یہ ساری ارفع اور اعلیٰ روایات آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئیں۔ آج ہم ایک دور اہے پر کھڑے ہیں۔اگرتمام سٹیک ہولڈرز بشمول حکومت وقت اس نظام کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ تو اولین فرصت میں کچھ دور رس فیصلے کرنے ہونگے۔ جن میں مقدمات کی طوالت خصوصا" دیوانی مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اپیل در اپیل کا سلسلہ روکنا ہو گا۔ کسی خاص مالیت تک مقدمات کو ڈسٹرکٹ جج کی عدالت تک ہی منزل تک ہمکنار ہونا پڑے گا۔ تقسیم جائیداد کے دعویٰ کا پروسیجر اور فیصلے تک مراحل میں آسانی اور تیزی پیدا کرنا ہو گی۔ ہمارے ہاں اکثر مقدمہ بازی جیتنے کے لئے نہیں بلکہ حریف کو ہرانے کے لئے کی جاتی ہے۔ کیونکہ جو مزا دوسرے کو ہرانے میں ہے وہ جیتنے میں ادھر نہیں ملتا۔ اسی طرح عموما" وہ مقدمہ بازی جو ضد، انا ، غصہ، ہٹ دھرمی، کینہ وحسد سے شروع ہوتی ہے۔ شرمندگی ، ندامت، حزیمت اور پچھتاوے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں گھسے پٹے طریقے اور فرسودہ نظام اور راویات سے چھٹکارا ضروری ہے۔ ہمیں آؤٹ آف باکس حل اور نئی جہتیں تلاش کر نا ہوں گی۔ لاکھوں کی تعداد میں زیر سماعت مقدمات اور التوا در التوا کی ریت کو کسی بہتر قابل عمل حل کے ذریعہ احسن طریقہ سے ختم کرنا ہو گا۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ صاحب کے زمانہ میں اے۔ ڈی۔آر۔ (مصالحتی عدالتوں) کا نظام پنجاب میں بڑے منّظم طریقہ سے شروع کیا گیا۔ اگر یہ سلسلہ تواتر سے چلتا تو آج حیران کن نتائج دے رہا ہوتا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ بطور ڈسٹرکٹ جج لاہور اے۔ڈی۔آر۔ کی عدالتیں سب سے پہلے لاہور سے کامیابی سے شروع کی گئیں۔ لاہور بار نے کھلے دل سے بھر پور تعاون کیا۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کی پہلی صنفی جرائم جینڈر بیس وائلنس کورٹ اور بچوں کی چائلڈ کورٹ کا آغاز بھی لاہور سے اسی دور میں شروع ہوا۔گارڈین /فیملی مقدمات کی سماعت کے لئے شام کی عدالت کا آغاز بھی لاہور سے ہی ہوا۔ اب بھی یہ عدالتیں کا میابی سے کام کر رہی ہیں۔ حکومت دیگر معاملات میں جہاں اسے ضرورت ہو راتوں رات قانون سازی کر لیتی ہے۔ مگر عدالتی نظام کو جس سے کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہیں، میں بہتری کی کوئی شعوری کوشش کرتی نظر نہ آتی ۔ اسی طرح جوڈیشل افسران کے مسائل جن میں بہتر عدالتی ماحول اور انفراسٹرکچر کی فراہمی، بر وقت ترقی اور عدالت عالیہ میں ایک معقول تعداد میں ڈسٹرکٹ ججوں کی صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ترقی اور دیگر مسائل کے حل سے ضلعی عدلیہ میں پائے جانے والا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے اور اس سے عدالتی استعداد کار بڑھانے میں یقینا مدد ملے گی۔