چیف جسٹس افتخار چوہدری ریٹائر ہوں یا چیف جسٹس ثاقب نثار ایک خاص ٹولہء متاثرین بحر حال اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کر دیتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص کی اپنی خواہشات اور انصاف کا اپنا معیار ہے اور جو کوئی بھی جج یا اہم عہدے پر موجود شخص ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا توانکی ناراضگی شروع ہو جاتی ہے۔گزشتہ دو روز سے جسٹس ثاقب نثارایسے لوگوں کے نشانے پر ہیں ۔ایک بہت ہی نامی گرامی بیرسٹر ایک ٹی وی پروگرام میں انکے بطور چیف جسٹس عرصے کو ایک تاریک دور قرار دے رہے تھے۔کوئی ایسا سائل جس کا مقدمہ اسکی مرضی کے خلاف طے پا گیا ہو اس قسم کی بات جذبات میں بہہ کر کہہ دے تو بات سمجھ آتی ہے لیکن ایک ماہر قانون جو نظام عدل اور اس کے طریقہ کار سے پوری طرح واقف ہے وہ ایک چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو ایک تاریک دور قرار دے تو یہ امر لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ بحیثیت جج آپ جسٹس ثاقب نثار کے رویے اور فیصلوں پر تنقید ضرور کریں لیکن مغل بادشاہ کی سربراہی میں عدالت کام نہیں کر رہی ہوتی۔ سترہ آزاد منش جج وہاں ہوتے ہیں جو آئے دن اپنے فیصلوں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کسی کے حکم کے تحت کام نہیں کر رہے اور نہ ہی کسی کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔اگرچہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بلحاظ عہدہ انتظامی سربراہ ہوتے ہیں اور انہوں نے بنچ بھی تشکیل دینے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی جج ایک دوسرے سے کمتر تصور نہیں ہوتا۔فیصلہ دیتے ہوئے ہر جج اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق قانون کی تشریح کرتا ہے اور اگر بنچ کے باقی ججوں سے اتفاق نہ ہو تو اپنا الگ فیصلہ بھی دے سکتا ہے۔آئے روز یہ ہو بھی رہا ہوتا ہے کہ ججز اختلافی نوٹ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ میں خود چیف جسٹس افتخار چوہدری کے رویے کا ناقد رہا ہوں لیکن اسکی بنیاد پر پوری سپریم کورٹ یا ایک خاص چیف جسٹس کے عرصہ کو کسی شاہی سلطنت کے دور کی طرح دیکھنا اور اس پر فتویٰ صادر کرنا بہت انتہا پسندانہ رویہ ہے۔ اگر بغورر جائزہ لیں تو گزشتہ کچھ عرصہ سے تواتر کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ اہم عوامی اور قومی معاملات پر مسلسل نوٹس لے رہی ہے۔ بھلے یہ سوئوموٹو ہو یا پھر کسی اپیل کی صورت میں عدالت کے سامنے آئے۔ اس میں کراچی کی امن و امان کی صورتحال ہو،چائنا کٹنگ کا معاملہ ہو، ملیر کینٹ کی زمین بحریہ ٹائون کو دینے کا مسئلہ ہو،اہم قومی منصوبوں میں مالی بے ضابطگیوں کے معاملات ہوں، پینے کے پانی کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں ہوں، پرائیویٹ کالجز یا ہسپتالوں کی من مانیاں ہوں، غرضیکہ کوئی بھی ایسا معاملہ جس سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہوں جب جب عدلیہ کے نوٹس میں آتاہے وہ اس پر ایکشن لے رہی ہے اور کچھ تاریخی فیصلے بھی ہو رہے ہیں۔گزشتہ کچھ سالوں سے سب سے متنازعہ مقدمات وہ رہے ہیں جن میں سیاسی عمائدین ملوث ہیں ایسے مقدمات کے فیصلے سپریم کورٹ ایک ہی اصول اور قانون کی بنیاد پر کر رہی ہے اور وہ بنیاد یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کے اہل لوگوں کو عام آدمی کے معیار سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ جتنا اہم عہدہ ہو گا اتنا ہی کڑا معیار ہو گا۔جب کہ یہ فیصلے ایسے نہیں کئے جا رہے کہ کسی کو خوش کرنا ہے اور کسی کو سزا دینی ہے۔ بہت سے قائدین کی خواہش کے برعکس یہ فیصلے اس لئے بھی نہیں ہو رہے کہ سکور برابر کیا جائے۔ ہر مقدمے کا اپنا میرٹ ہو تا ہے اور مقدمہ سننے والے جج صاحبان اس کو قانون اور آئین کے معیار پر پرکھنے کے بعد اور پہلے سے وضع شدہ اصول‘ قانون یا نظیر کی بنیاد پر اگر موجود ہو تو فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی نظیر موجود نہ ہو تو انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے تجربے اور علم کی بنیاد پر نئی نظیر بناتے ہیں۔دنیا بھر میں میں یہی دستور رائج ہے اور انہی بنیادوں پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے ہاں طالع آزمائوں کو آئینی تحفظ دینا اور اہم سیاسی مقدمات میں فون آنے پر فیصلے کرنے کی بھی ایک تاریخ ہے لیکن یہ تاریخ کہیں مختصر ہے اس تاریخ سے جو اعلیٰ عدلیہ نے گزشتہ ستر سال میں رقم کی ہے اور پاکستان میں اصول اور قانون کی ترویج ہوئی ہے۔ آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کو عوامی اہمیت کے معاملات میں اختیار سماعت دیتا ہے۔ جب عوامی اور قومی اہمیت کے معاملات ہوں تو ہر ادارے کاآئینی کردار ہے اور ایسی صورتحال میں جہاں نا قابل تردید شواہد ہونے کے باوجود چھوٹی عدالتیں دہائیوں تک مقدمات کا فیصلہ نہ کریں اور جب کریں تو تکنیکی بنیادوں پر طاقتور کو بری کر دیں۔یا پھر کسی مصالحتی آرڈیننس کے ذریعے لوگوں کی سات پشتوں کے جرائم معاف کر دیئے جائیں۔ وہاں اس بات کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ادارے اہم قومی معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے سے نہ ہچکچائیں۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف عمومی طور پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں بلکہ ملکی سیاست میں ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جو سیاست کو خدمت کی بجائے ایک منفعت بخش پیشہ سمجھتے رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ بڑے مقدمات کے فیصلے کرنے سے پہلے اعلیٰ عدلیہ نے اپنے بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور ہر نئے فیصلے کے بعد یہ یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے لئے کڑا امتحان ہے کیونکہ جس قسم کی تنقید کا ملک کے اس سب سے بڑے انصاف کے ادارے کو سامنا ہے اس میں تحمل، بردباری اور درست فیصلے ہی سب سے بہتر جواب ہیں۔ایک بات جو ہماری اشرافیہ ہضم نہیں کر پا رہی وہ یہ ہے کہ انہیں قابل احتساب بنایا جا سکتا ہے؟ یہی انکی سب سے بڑی بھول ہے۔دور بدل رہا ہے ۔ جہاں ملک کے دوسرے بڑے اداروں نے اس تبدیلی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدل لیا ہے اب اشرافیہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ۔It's not business as usual