عمران خان عربی فارسی کا ذوق نہیں رکھتے۔ نوابزادہ نصراللہ خان،ممتاز محمد خان دولتانہ اور مشتاق احمد گورمانی کی طرح شعرو شاعری سے شغف بھی نہیں، ورنہ ان دنوں ایک فارسی مصرعہ گنگنایا کرتے : عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادر اں باشد پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن سے ایک بار پھر وہی سلوک کیا ‘ جس کا انہیں وہ مستحق سمجھتی ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد حضرت مولانا کے والد مفتی محمود مرحوم نے صوبائی وزارت اعلیٰ پر اپنا حق جتلایا تو عبدالولی خان نے پھبتی کسی کہ ہماری روٹیوں پر پلنے والے مولوی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ یہ اور بات کہ بعد ازاں ولی خان کی پارٹی نے اسی مولوی کو اپنا وزیر اعلیٰ مانا۔حضرت مولانا کی فراست کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ڈیڑھ دو سال پہلے تک ہم بھی حسن ظن کا شکار تھے مگر 2018ء کا الیکشن ہارنے کے بعد لگتا ہے کہ مولانا فراست تو درکنار‘ عملیت پسندی کے جوہر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ورنہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری یوں بار بار ان سے کھلواڑ نہ کرتے۔ اسلام آباد بلا کر مولانا سے بے وفائی کی‘ بلاول بھٹو اور میاں شہبازشریف تھوڑی دیر کے لیے دھرنے میں آئے‘ پرجوش تقریریں کیں اور پھر یہ جا وہ جا‘ اس دھرنے کے طفیل میاں صاحب لندن کو سدھارے اور آصف علی زرداری‘ فریال تالپور اور دیگر پارٹی لیڈروں کی ضمانتیں ہوگئیں‘ توقع یہ تھی کہ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ پائوں کالے کرانے کے بعد مولانا دونوں جماعتوں نہ سہی دونوں موقع پرست سیاسی خاندانوں کے دام فریب میں نہیں آئیں گے مگر مولانا سیاست کے وہ مرد مومن ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار برضا و رغبت ڈسے جاتے اور اسے مومنانہ فراست سے تعبیر فرماتے ہیں۔ مولانا کے نیاز مند کے طور پر ہمارا ماتھا تو اس وقت ٹھنکا تھا جب چھ سات ماہ قبل پی ڈی ایم کے اجلاس میں لانگ مارچ‘ دھرنے اور استعفوں کے لیے جنوری کی تاریخیں دی گئیں۔ نیک کام میں اتنی تاخیر کا مطلب ہم نے یہی سمجھا کہ مولانا کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان اپنی تقریروں میں جو چند اشعار تواتر سے پڑھا کرتے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہاں سے لائوں‘ صبر حضرت ایوبؑ اے ساقی خم آئے گا‘ صراحی آئے گی، پھر جام آئے گا پانچ چھ ماہ کا ٹائم شیڈول دے کر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اپنے عزائم واضح کردیئے تھے کہ وہ لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہیں نہ دھرنے اور استعفوں کا، جنوری فروری کی شدید سردی میں عرصہ دراز سے اقتدار کے ایوانوں میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والی سیاسی و مذہبی قیادت لانگ مارچ اور دھرنے کی کلفت برداشت کر سکتی ہے نہ چوری کھانے والے مجنوں مزاج کارکن۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے ارکان اسمبلی کے لیے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا آسان تھا نہ ہے‘ صاف لگ رہا تھا کہ دایاں دکھا کر بایاں مارنے کی عادی قیادت پی ڈی ایم اور مولانا کا ہوّا دکھا کر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات سیدھے کرنا چاہتی ہے، وہ استعفے دینے میں سنجیدہ ہے نہ سینٹ کے الیکشن کو سبوتاژ کرنے کے قابل۔ آج صورت حال یہ ہے کہ استعفوں کی دھمکیاں دے کر حکومت کو بلیک میل کرنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار اُتار رہی ہیں، سینٹ انتخابات کے لیے منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ درون پردہ رابطوں کی اطلاعات سے اپنے کارکنوں کے حوصلے بلند کیے جا رہے ہیں جس کی ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک تردید کر کے پی ڈی ایم کے ہمنوائوں کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ اخلاقی اور سیاسی ساکھ کے اس بحران نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو عوام کی نظروں سے گرایا اور احتجاجی تحریک کی دھمکیوں کو گیدڑ بھبکیوں میں بدلا ہے۔ جب عوام دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ اسمبلیوں کو دھاندلی زدہ اور سلیکٹڈ قرار دینے والی جماعتیں انہی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہیں، اپنے امیدوار میدان میں اتار رہی ہیں تو وہ مولانا، مریم نواز اور بلاول کی کسی بات پر اعتبار کیوں کریں؟ 2018ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے حکمرانوں پر اعتراض اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر آمادگی کھلا تضاد ہے اور اس کا کوئی جواز کتاب الحیل میں تلاش کرنا ممکن نہیں، ورنہ حضرت مولانا اب تک کوئی شرعی یا غیر شرعی حیلہ بیان فرما چکے ہوتے، میں روز اول سے لکھ اور کہہ رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی ماضی کے تجربات اور اپنے سیاسی وژن کے مطابق استعفوں پر کبھی تیار ہو گی نہ موجودہ جمہوری ڈھانچے کو گرانے کی کسی سازش کا حصہ بنے گی‘ 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ محترمہ بے نظیر بھٹو، پیپلزپارٹی کے لیے ہمیشہ ڈرائونا خواب رہا اور وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں دہرائے گی۔ 2007ء میں اس بنا پر پیپلزپارٹی نے میاں نوازشریف کو اپنے عمران خان‘ قاضی حسین احمد‘ محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو ایسے حلیفوں سے بے وفائی بلکہ بدعہدی پر آمادہ کیا اور مسلم لیگ ق کو حکومت بنانے سے روکا ورنہ پنجاب پکے ہوئے پھل کی طرح چودھری برادران کی جھولی میں گرنے والا تھا۔ ضمنی اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد استعفوں کی آپشن تو جواز ہی نہیں افادیت بھی کھو چکی‘ لانگ مارچ اور دھرنے کی دھمکیاں بھی محض بروزن بیت ہیں‘ مولانا کی اشک شوئی کے بہانے‘ خدانخواستہ مولانا نے یہ غلطی کی تو 2019ء کے دھرنے سے انجام مختلف نہیں ہوگا ۔قرین قیاس کہ پہلے سے بدتر‘ البتہ اس سجدہ سہو کے عوض مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ کیا لگا؟ یہ سنجیدہ سوال ہے۔ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت یعنی عمران خان اور عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی باتیں ہورہی ہیں مگر یہ پہاڑ کون سر کرے گا؟ کیا شریف خاندان میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ وفاقی سطح پر بلاول بھٹو اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکمرانی کے لیے راہ ہموار کرے؟ بظاہر ایں خیال است و محال است و جنوں 2010ء میں گورنر راج لگنے کے بعد شریف خاندان نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کو یہ موقع فراہم نہ کیا کہ پنجاب ایک بار ہاتھ سے نکل گیا تو دوبارہ ملنا مشکل۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے مخالفین جو بھی کہیں مگر مہنگائی کے باعث عوام موجودہ حکومت سے مکمل مایوس ہوئے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ اس پر معترض و ناراض لگتی ہے۔ عمران خان کو اپنے دعوئوں کی روشنی میں جانچا جائے تو مایوسی ہوتی ہے لیکن اگر میاں نوازشریف‘ آصف علی زرداری کے طرز حکمرانی سے موازنہ کیا جائے تو خارجہ‘ داخلہ اور دفاعی محاذ پر اطمینان بخش پیش رفت نظر آتی ہے‘ مالیاتی پالیسیوں میں بھی عوام دشمن عوامل کو تلاش کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ غلطیاں اور کمزوریاں ہیں مگر ذاتی وگروہی مفاد کو قومی مفاد پرترجیح دینے کا ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکا، اسٹیبلشمنٹ کو محض میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی خوشنودی کے لیے اچھا بھلا چلتا نظام لپیٹ کر تبدیلی کا رسک لینے کی ضرورت ہے؟ بظاہر موجودہ اسٹیبلشمنٹ مولانا کی طرح ایک ہی سوراخ سے اپنے آپ کو دوبارہ ڈسوانے کی شوقین نظر نہیں آتی، سو پی ڈی ایم کا احتجاجی ایجنڈا ٹھس ہونے کے بعد ملک میں غیر آئینی درکنار غیر جمہوری تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سچی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے عمران خان کوکمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے اور اس کے بیانئے نے اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں عمران خان کی افادیت دوچند کردی ہے: عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادر اں باشد