جنگیں خطرناک ہوتی ہیں‘لہو کے دریا بہتے ہیں‘ قومیں تباہ ملک برباد آبادیاں ویران ہو جاتی ہیں‘ عورتوں کی عصمت بچوں کی زندگیاں نگل جاتی ہیں مگر کون سی جنگ سیاست سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے؟ ساری جنگیں مگر سیاست ہی کا شاخسانہ ہیں‘پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اپنے مقابلے میں بہت بڑے اور بھاری دشمنوں سے کوئی جنگ نہیں ہارا لیکن’’پاکستان میں بہادر جنگ جوئوں کی سیاست نے آدھا پاکستان ہار دیا‘‘جنگ جو اس شکست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، یہ انکار ایسے وقت کیا جا رہا ہے، جب باقی پاکستان بھی انہی کے ہاتھوں ایک دوسری طرح کے خطرے سے دوچار کر دیا گیا ہے: اندھیری رات ‘ طوفانی ہوا‘ ٹوٹی ہوئی کشتی یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پہ ناخدا تم ہو سابقہ سپہ سالار قمر جاوید باجوہ جو حال ہی میں موجود سے سابق ہوئے‘ اپنے کئے کے نتائج کی صفائی دینے کے چکر میں بیالیس برس(42) پہلے ہمارے جسم اور روح کو دیے گھائو جو اب تک ناسور بن کر بہہ رہے ہیں‘ انہیں کرید کر پھر سے ہماری اذیت میں اضافہ کرتے چلے گئے‘ ہم جو مشرقی پاکستان کے المیے کے چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ اس کا بدقسمت حصہ رہے ہیں،ہم نے مشاہدہ کیا‘ اس تجربے میں شرکت کی‘ یہ دیکھا کہ جب جنگ جو سپہ سالار سیاست کا شہ سوار بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ مگر اس انجام سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے جواز تراشنے اپنے سر کا جرم دوسروں پر دھرنے کی بے ثمر کوشش کی جا رہی ہے‘ یحییٰ خاں ہوں یا جنرل باجوہ، انہیں یہ سہولت میسر ہے کہ بہادر‘ تربیت یافتہ‘ مسلح جوانوں کے حصار میں کھڑے ہو کر غیر مسلح‘ مہر بند سامعین کے سامنے بھاشن دیا کریں‘ اس بھاشن میں جو جی میں آئے ارشاد کریں‘ مہر بند کرائے کے دانشور اور بھاڑے کے اخبار نویس ان بے مغز‘ مہمل جملوں کو اخبارات کی جلی سرخیاں بنا کر قوم کی یادداشت کا مذاق اڑائیں۔خاموشی پردہ ہے جاہل اور احمق کے لئے‘ خاموشی زیور ہے‘ دانشمند اور عالم کے لئے۔ زیور اگر میسر نہیں تو پردہ پڑا رہنے دیں۔ ’’پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا‘‘ حضور شاید آپ کو یاد نہ ہو کہ 1958ء سے 1971ء کے سانحے تک پاکستان کی سیادت‘ قیادت‘ رہنمائی(اگر اسے رہنمائی کہہ سکیں) فیصلہ سازی بری فوج کے سربراہ ایوب خاں اور اس کے بعد دوسرے سربراہ یحییٰ خاں کے ہاتھ میں تھی‘ یحییٰ خاں کی کارگزاریاں اور کارستانیاں ساری قوم کے علم میں ہیں‘انہی بیدار معزز قیادت اور سیاسی رہنمائوں میں وہ سانحہ قوم پر گزرا ہے جس کا بدلہ لینے کے نام پر آپ نے اب تک اپنے ناموں کا ڈنکا بجا رکھا ہے‘ اپنے کئے کا جواز پیش کرنے کے لئے پہلے پہل اچھے بھلے ترجمانوں کی بھد اڑوا دی‘ اب مائک ہاتھ میں لئے ہے تو ایسے فورم پر آئیے جہاں کوئی پوچھنے والا بھی ہو‘ سوال کرنے والا بھی‘ آپ نے چھ برس تک پاکستان کی خدمت جی بھر کے کر لی ہے‘ آپ کی قیادت کی بہاریں بھی ہم نے لوٹی ہیں اور عمران خاں کی لائی خزاں کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں‘ اب آپ پر کوئی خاص پابندی باقی نہیں رہی، اپنی بہادری اور زباں آوری کا ثبوت دیجیے‘اپنی گھڑی ہوئی تیرہ 13جماعتی پی ڈی ایم کو بھی مدد کے لئے طلب کریں،مینار پاکستان میں جلسہ عام کا انعقاد کریں،قوم کو آوازیں کہ وہ جوق درجوق آپ ارشادات سننے کے شریک ہو یوں نہ صرف عمران خاں کی مقبولیت کا بھرم کھل جائے گا‘ ساتھ ہی آپ کی دھاک بیٹھ جائے گی‘ عمران خاں کا بیانیہ دفن ہو جائے گا‘ پھر سے آپ کا طوطی بولنے لگے گا‘ آئیے مینارِ پاکستان وسیع میدان میں عمران خاں کو چیلنج کر کے اس کے غبارے سے ہوا نکال دیں۔اس نکلی ہوئی ہوا سے آپ کا غبارہ پھول جائے گا‘ اگر ایسا کرنے میں آپ کی فطری ’’حیا‘‘ مانع ہو تو کم از کم یہ اہتمام تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ پاکستان بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کے سامنے عمران خاں کو چیلنج کریں‘ دونوں کے درمیان آمنے سامنے بیٹھ کر’’امریکی سائفر کو ایک مفروضہ اور ڈھونگ ثابت کریں‘ سازش کو صرف سنگین مداخلت بنائیں پھر دونوں کے درمیان باریک فرق کی وضاحت کریں‘ عمران خاں کی ناکامیاں گنوائیں‘ اپنی کامیابیوں کی فہرست مہیا کریں۔آپ آور ہیں‘ زور آور ہیں‘ قادر الکلام‘ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں‘ عمران کی اینٹ کا جواب پتھر ہیں، بہترین فورم جہاں آپ مشرقی پاکستان کے سانحے کے الزام سے یحییٰ خاں کو بھی صاف بچا کر لے جائیں گے اور یہ بھی بتا سکیں گے کہ جب مشرقی پاکستان پر حملے کا پہلے سے علم تھا تو اس کے دفاع کے لئے صرف 34ہزار جوانوں پر مشتمل مختصر فوج کیوں رکھی گئی‘ 34ہزار فوج تھی تو 90ہزار جنگی قیدی کیوں کہا جاتا رہا‘ جب قیادت و اقتدار فوج کے سربراہوں کے پاس تھی سازش ہو یا جنگ اس کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی‘ اسی فورم پر آپ یہ وضاحت بھی کر سکیں گے کہ امریکی اہلکار نے کس کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’’عمران خاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے، اسے کامیاب بنائیں، اگر ناکام ہو گئی تو پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘ عمران خاں وزیر اعظم تھا تو امریکی اہلکار نے آخر اسی کو ہٹانے کے لئے کس سے مخاطب ہوا‘ اس سائفر کو حکومت وقت سے اوجھل رکھنے کی کوشش کس نے کی؟ یہ سائفر کم سے کم تین ذرائع سے تین اداروں کے اس اپنے اپنے امریکہ میں موجود اہلکاروں نے بھجوایا‘ اگر وزارت خارجہ میں کسی نے اسے چھپائے رکھنے کی جرات کی ہے تو ملٹری اتاشی اور خفیہ ذرائع سے آنے والی رپورٹیں وزیر اعظم کے علم میں کیوں نہیں لائی گئی ہیں‘ وزیر اعظم کو اسلامی وزراء خارجہ کی کانفرنس کی وجہ سے اس سائفر پر بات نہ کرنے سے کس نے روکا‘ جب وزیر اعظم نے راولپنڈی جلسہ عام میں وہ کاغذ لہرایا تو اسی وقت اس سے انکار کیوں نہیں کیا گیا؟ سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہوں بشمول قمر جاوید باجوہ اس سائفر کو پاکستان کے معاملات میں سنگین مداخلت قرار دے کر امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دینے کا فیصلہ کیوں ہوا اور اس فیصلے پر عملدرآمد بھی کیا گیا‘ جس سازش کا ذکر عمران خاں بار بار کرتے رہے اس سازش کے کامیاب ہو جانے اور عمران خاں کی حکومت ختم کر دینے کے بعد نام نہاد وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا گیا‘ امریکہ میں پاکستانی سفیر جس نے سفارتی مراسلہ بھیجا تھا، اس کو بھی طلب کیا گیا‘اس پر زور ڈالا گیا کہ وہ اس بارے میں کچھ گول مول جواز ہی پیش کر دے، اس کے انکار اور دوسری دفاعی اداروں کے سربراہوں کی موجودگی کے سبب پھر سے اس مراسلے کی توثیق اور تصدیق کی گئی، تو اب غیر روایتی طریقے سے ان فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کیوں کی جا رہی تھی‘ سابق سپہ سالار کو بالآخر اس کا جواب دینا ہے‘ آج یا کل۔