اقوام کی تاریخ مہینوں برسوں میں نہیں دھائیوں اور صدیوں میں بنتی ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قوم کے زوال سے پہلے اس معاشرے کا اخلاق تباہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں انسان نہیں انسانیت مرتی ہے۔ جہاں انسانیت نہ ہو وہاں اچھائی اور برائی کا فرق ختم اور انسان خواہشات اور ہوس کے غلام بن جاتے ہیں۔ اصلاح احوال کے بجائے حالات کے ماتم کاچلن قوم کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ سماج سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے اسی بے حسی اور بے راہ روی سے گزر رہا ہے ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ہر سانحہ پر ماتم کرتے ہیں۔ حکمران مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر ایک اور سانحے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کمشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17ہزار واقعات رونما ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں 10620واقعات میں لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 7242لڑکے درندوں کی ہوس کا شکار ہوئے ۔ہمارے نظام عدل کی حالت یہ ہے کہ 17ہزار واقعات میں سے صرف 112مجرمان کو سزا ہو سکی جن میں 25مجرموں کو سزائے موت 11کو عمر قید کی سزا ہو ئی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک میں 15سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 42فیصد ہے جبکہ ہر روز 10بچے درندگی کا شکار ہوتے ہیں ہر چار میں سے ایک بچی جبکہ ہر چھ میں ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے درندگی کا شکار ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک دھائی سے معاشرے میں سفاکی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بچوں کو درنگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ۔قصور میںدرجنوں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے مگر حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ برسوں کی آہ و بکا کے بعد جب زینب الرٹ بل اسمبلی سے منظور ہوا تو سینٹ میں اس پر اعتراضات اٹھائے گئے شاید انہی حکمرانوں کے لئے حبیب جالب نے کہا تھا: نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں یہاں الٹی کنگا بہتی ہے اس دیس کے اندھے حاکم ہیں اس دیس کے حاکم اندھے نہ ہوتے تو زینب ، فرشتہ اور ان جیسے درجنوں بچوں سے جنسی درندگی کے بعد قتل کے واقعات کے بعد معاشرے میں بڑھتی حیوانیت کے تدارک کے لئے سرجوڑ کر بیٹھتے۔انسانیت سے عاری اس رویے کے اسباب جاننے کے لئے نفسیات، سماجیات اور قانون کے ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمشن بنایا جاتا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے جرم کے بجائے مجرم ختم کرنے کا حل تلاش کیا۔ یہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ زینب الرٹ بل کی منظوری اور 25مجرموں کو پھانسی کو سزا اور اس کی تشہیر کے باوجود درندگی کا یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق جنسی تشدد کے مرتکب افراد کی اکثریت بھی بچپن میں خود جنسی استحصال کا شکار رہ چکی ہوتی ہے ایسے افراد کسی حد تک خود کو اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیونکہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے انسان کو ناقابل تصور جسمانی اور ذہنی اذیت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر مسلسل ذہنی دبائو، نفرت اور غصے کی کیفیت میں رہتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس ذہنی حالت کو بیماری قرار دیتے ہیں جس کو پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر کہا جاتا ہے ۔مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے اور انسان انتقام کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی آف دا سائوتھ کی ماہر نفسیات شیری ہیمبی کے مطابق کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین کے لئے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے واقعات کے انسداد کے لئے مجرموں کو سزا کے ساتھ معاشرے میں وحشیانہ رویے کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔یہ ہمارے حکمرانوںکی محض زینب الرٹ بل کی منظوری کے بعد ذمہ داری سے بری ہونے کی کوشش کا ہی نتیجہ ہے کہ 25مجرموں کی پھانسی کے بعد بھی کشمور کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس حادثے کی وجہ بھوک اور غربت بنی۔ یہ بھوک ہی تھی جو ایک ماں کو روٹی کی تلاش میں کشمور ایسے دور افتادہ علاقے میں کھینچ کر لے گئی۔ جہاں انسان کی شکل میں وحشیوں نے ماں کے سامنے اس کی ننھی بیٹی علیشا کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ علیشا نے میڈیا کے سامنے اپنے کپڑے نہیں اتارے بلکہ پورے سماج کو برہنہ کیا ہے۔ علیشا نے ان حکمرانوں کی آنکھوں اور عقل پر پڑی پٹی اتارنے کی کوشش کی ہے جو محض قانون بنا کر اس گھنائونے جرم کے خاتمے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ معاملہ قانون کے ساتھ سماج کی تطہیر کا ہے۔ مجرم کو پھانسی پر لٹکانے سے مجرم تو مر جائے گا مگر جرم زندہ رے گا اور کسی اور چہرے کے ساتھ سرزد ہو گا۔ عمران مر گیا مگر جرم کشمور میں خیر اللہ بگٹی اور رفیق ملک کے نام کے ساتھ نمودار ہوا ہے اگر ہمیں اپنے مستقبل اپنے بچوں کو اس بربریت سے بچانا ہے تو اس کے لئے سخت قوانین کے ساتھ معاشرتی سدھار کے لئے جامع اقدامات کرنا ہوں گے اور یہ کام ہفتوں مہینوں میں ہونے والا نہیں اس کے لئے برسوں اور دھائیوں پر محیط پالیسیاں بنانا ہوں گی ۔بچوں اور والدین میں شعور کے ساتھ نصاب تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔ جرم کے بجائے اس کے اسباب کو ختم کرنا ہو گا جدید ٹیکنالوجی کے بعد دنیا انسان کی ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے ۔انٹرنیٹ تک بچوں کی رسائی معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی وجہ بن رہی ہے۔ اپنے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد ہمارے بچوں اور بڑوں کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے جب تک حکومت جنسی تشدد کے اسباب کے تدارک کے لئے جامع پالیسی نہیں بناتی کشمور میں علیشا اور قصور میں زینب اسلام آباد میں فرشتہ ایسی معصوم بچیاں درندگی کا شکار ہوتی رہیں گی۔