وزیر اعظم عمران خان کی قسمت ایسی رہی ہے کہ انہیں پے درپے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔منیر نیازی کا ایک دریا سے پاراتر کر دوسرے دریا کا سامنا کرنا ممکن ہے شاعرانہ تعلی ہو لیکن مذکورہ شعر جواب حقیقتاًمحاورہ بن گیا ہے، عمران خان پہ صادق آتا ہے۔ وہ جب کرکٹ کے میدان کے شہسوار تھے تب بھی صورتحال مختلف نہ تھی۔ جنوبی ایشیا کی کرکٹ پہ بھارت اپنی اسی طرح اجارہ داری سمجھتا تھا جس طرح آج وہ خطے میں اپنی قوت کا اظہار وقتا ًفوقتاً کرتا رہتا ہے۔اس کی اخلاقیات کا عالم یہ تھا کہ اگر ایشیا کپ بھارت جیت جاتا تو وہ مہان بھارت کی فتح ہوتی اور بھارتی ٹیم شیمپئن کی بوتلوں کے کاک اڑا کر فتح کا جشن مناتی اور اگر سری لنکا جیت جاتا تو وہ پورے ایشیا کی فتح ہوتی جس میں ظاہر ہے بھارت بھی حصہ دار ہوتا۔ عمران خان بھارت کی اس ذہنیت سے اس اچھی طرح واقف تھے کہ تمام تیکنیکی اور غیر تیکنیکی حربوں کے باوجود انہوں نے بھارت کومیدان سے بھاگنے نہیں دیا۔عمران خان نے اپنے کیریئر کی بہترین کرکٹ بھارت کے ہی خلاف کھیلی ہے۔میلبورن میں نئی گیند کے ساتھ بھارتی ٹیم کے فرسٹ بیٹنگ آرڈر کی اپنی تباہ کن باؤلنگ سے یکے بعد دیگرے ستائیس گیندوں پہ تین وکٹیں آج بھی شائقین کو یاد ہیں جبکہ انڈیا کی بہترین بیٹنگ لائن کے مقابلے میں پاکستان کا سکور صرف 183 رنز تھا۔ کرکٹ کے شائقین کو مارچ 1987 ء کا بنگلور ٹیسٹ یقینا یاد ہوگا۔ عالمی چیمپئن بھارت کو اس کے ہوم گراؤنڈ پہ شکست دینا ناممکن تصور کیا جاتا تھا ۔ ایک تو وہ تیرہ کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی دوسرے ان کا انتہائی متعصب ہو م کراؤڈ جو پاکستان سے شکست کسی صورت برداشت نہیں کرتا تھا۔ اس وقت بھی شیو سینا اپنی تخریبی صلاحیتیوں کے ساتھ اسٹیڈیم کی اگلی قطار میں براجمان ہوتی تھی۔ پاکستانی کھلاڑیوں پہ فقرے کسنا، فحش گالیاں دینا،بوتلیں پھینکنا معمول کی بات تھی۔ اگر میچ کا موڈ ہی نہ ہو تو اسٹیڈیم کو آگ لگادینا یاراتوں رات پچ کھود ڈالنا بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ میچ میں شکست کے آثار دیکھ کر ہی جلاؤ گھیراو ٔپہ اتر آنا بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ عام بھارتی بھی کچھ کم متعصب نہیں تھے۔ عمران خان سے انتہائی درجے کے مرعوب ہونے اور ان کی پرستش کی حد تک محبوبیت میں مبتلا ہونے کی دوغلی نفسیات کا شکار بھارتی ان سے حددرجے خائف بھی تھے۔ ایک تو خان صاحب کی زبان بے پناہ قسم کی بے قابو تھی اور وہ برملا بھارتیوں کو کھری کھری سنا دیا کرتے تھے۔دوسرے وہ ہر قسم کے معاندانہ حالات کے باوجود اپنی ٹیم کو پریشر میں نہیں آنے دیتے تھے۔دوسری طرف بھارتی ایمپائروں ہی نہیں، سنیل گواسکر اور کپل دیو جیسے کھلاڑیوں کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ وہ صاف ایل بی ڈبلیو ہونے کے باوجود اس وقت تک پچ پہ کھڑے رہتے جب تک ایمپائر انہیں ناٹ آوٹ قرار نہ دے دیتا۔ یہ بھارتی ٹیم کی عام اخلاقی حالت تھی جو وقتا ًفوقتاً ہوم گراونڈ میں ظاہر ہوتی رہتی تھی۔ اسی تناظر میں عمران خان نے نیوٹرل ایمپائر کی تجویز پیش کی جو اپنی نوعیت کی پہلی تجویز تھی ۔ بعد از خرابی بسیار عالمی کرکٹ کونسل نے اس پہ عمل بھی کیا۔ بنگلور ٹیسٹ سے قبل ہی عمران خان نیوٹرل ایمپائر کی تجویز پیش کرچکے تھے تاہم بھارت نے اپنی فتح کے نشے میں اس تجویز کو پائے حقارت سے رد کردیا تھا۔ پانچ ٹیسٹوں کی سیریز کے چار ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے ۔ آخری اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ بنگلو ر میں ہونا تھا جس میں توصیف احمد اور جاوید میانداد کی واپسی ہوئی تھی ۔اسپن وکٹ پہ ٹاس جیت کر عمران خان نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو منندر سنگھ کی وجہ سے غلط ثابت ہوا جنہوں نے سات وکٹیں لیں اور ٹیم بہت معمولی اسکور پہ آوٹ ہوگئی۔ پاکستانی شائقین بھارت سے اپنی متوقع شکست سے زیادہ بھارت کی جیت کی صورت میں متوقع رد عمل سے خائف تھے جو ظاہر ہے نہایت تکلیف دہ ہونا تھا۔اس صورتحال میں پاکستانی ٹیم جس دباؤ کا شکار تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔انتہائی نامساعد حالات، جانبدار ایمپائروں اور متعصب ہوم کراؤڈ کی موجودگی میں بنگلور ٹیسٹ کی جھلکیاں آج بھی خون گرما دیتی ہیں۔ عمران خان نے ان مشکل حالات اور کمزور ٹیم کا جس طرح مورال بلند کیا اور اس کے ایک ایک کھلاڑی کو جس طرح اس کی صلاحیتوں کے مطابق استعمال کیا اس کی مثال کرکٹ کی تاریخ میں مشکل سے ہی ملے گی۔پاکستان انتہائی اعصاب شکن صورتحال میں سولہ رنز سے بنگلور ٹیسٹ جیت کر سیریز بھی جیت گیا۔بھارت نے حسب توقع اپنی بھڑاس یوں نکالی کہ بہترین کارکردگی کے باوجود اقبال قاسم یا توصیف احمد کو مین آف دی میچ قرار دینے کی بجائے سنیل گواسکر کو مین آف دی میچ قرار دیا جن کی سینچری بھارت کو شکست سے نہ بچا سکی تھی۔اس وقت جبکہ رواج یہ تھا کہ عام طور پہ مین آف دی میچ فاتح ٹیم سے ہی منتخب کیا جاتا تھا۔ یہ بھارت کی نفسیاتی مجبوری تھی کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتا تھا۔ بھارتی ٹیم کے شہسواروں کی اخلاقی حالت عام طور پہ غیر پیشہ وارانہ ہوتی تھی۔ لاہور میں سر کانت کو وقار یونس نے صاف ایل بی ڈبلیو کیا لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھے۔ ایمپائر کی انگلی اٹھنے پہ انہیں جانا پڑاتو وہ رو پڑے۔ کپتان عمران خان نے یہ صورتحال دیکھی تو انہیںواپس بلایا اور کھیلنے کو کہا۔ اگلی ہی بال پہ وقار یونس نے انہیں بولڈ کردیا۔عمران خان اپنی مخصوص بے نیاز ہنسی ہنستے رہے۔ عام طور پہ کھلاڑی اپنی قوم کی نفسیات کا عمومی چہرہ ہوتے ہیں۔اسپورٹس یا جسمانی ایکٹیویٹی عام طور پہ پسینے کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے تعصبات کو بہا کر لے جاتی ہے۔ اسی لئے فرسٹریشن کا بہترین علاج اسپورٹس تجویز کیا جاتا ہے۔ جس قوم کے اسپورٹس مین اتنے متعصب اور اخلاقیات سے محروم ہوں اس کے عمومی تعصب کا اندازہ لگانا کیا مشکل ہے۔ عمران خان نے اس بھارتی ٹیم کو اس کی اوقات میں رکھا ہے جب وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ آج اگر اپوزیشن اس بات کو سمجھ لیتی تو وہ انتہائی نازک حالات میں پارلیمنٹ میں قومی یکجہتی اور کشمیر پہ اتفاق رائے کی دھجیاں نہ اڑاتی۔ آج مظفر آباد میں عمران خان کے جس جلسے کو اپوزیشن تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اسے انڈیا ٹوڈے نے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ جس اسٹیڈیم میں عمران خان جلسہ کررہے ہیں وہ قائد اعظم کے اس پرسنل سیکریٹری خورشید حسن کے نام پہ ہے جنہیں قائد اعظم نے 1947 ء میں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے بھیجا اور انہوں نے جواباً قائد اعظم کو کشمیر پہ لشکر کشی کا مشورہ دیا۔ پس ثابت ہوا کہ عمران خان کا مظفرآباد میں جلسہ کشمیر پہ لشکر کشی کا اشارہ ہوگا۔ہم شاید عمران خان کو اتنا نہیں جانتے جتنا ہمارا دشمن جانتا ہے اور جتنا دشمن جانتا ہے اتنا کوئی کسی کو نہیں جانتا۔