طے پایا گیا کہ واشنگٹن میں کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کی جائیں، جس نے بعد میں امارتی حکمرانوں کا رابطہ امریکہ میں طاقتور یہودی لابی یعنی امریکین جیوش کمیٹی یعنی اے جے سی سے کروایا۔انہی دنوں بھارت نے بھی اسرائیل کی ایما پر اسی کمیٹی کی خدمات امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے اور اسکو کانگریس کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے حاصل کی تھی۔ 2008میں امریکی کانگریس نے جوہری قانون میں ترمیم کرکے بھارت کیلئے جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کیلئے راستہ ہموار کردیا۔ اے جے سی نے نہ صرف اقوام متحدہ کی ایجنسی کا صدر دفتر ابو دھبئی میں کھولنے میں مدد کی، بلکہ 2009 میںامریکی کانگریس سے امارات کو بھی جوہر ی ٹیکنالوجی فراہم کروانے کیلئے بھارت ،امریکی نیوکلیر ڈیل کی طرز پر منظوری دلوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کے بعد کوریا کی ایک فرم کے اشتراک سے امارات نے 30بلین ڈالر کے نیوکلیر پروگرام کی داغ بیل ڈالی، جو اب تیار ہونے کے بلکل قریب ہے۔ وکی لیکس میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سیاسی مشیر مارک سیورز کی 2009کی ایک کیبل کا تذکرہ ہے، جس میں وہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کا انکشاف کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس کیبل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی اور امارت کے اس کے ہم منصب کی بند کمروں میں اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ 2010میں تاہم دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حمص کے لیڈر محمود الما بحوح کو قتل کردیا، اس سے قبل ان کو زہر دینے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ اسرائیلی صحافی لوسی ملمین کے مطابق اماراتی حکمران اس لئے ناراض ہوگئے کیونکہ یہ قتل ایسے وقت کیا گیا ، جب اسرائیلی سفارت کار برلوس کاشدان ا مذاکرت میں مصروف تھے اور اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ موساد کا قاتل دستہ تلاشی وغیرہ سے بچنے کیلئے سفار ت کار کے وفد کے ساتھ ہی دوبئی وارد ہو گیا تھا۔ مگر امریکی کانگریس اراکین کی پذیرائی حاصل کرنے اور ٹیکنالوجی کے حصول کی خاطر امارتی حکمرانوں نے یہ تلخ گھونٹ جلد پی لیا۔ 2016میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کو ریپبلیکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا، تو ولی عہد محمد بن زید النہیان نے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرالڈ کوشنر کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی تعلقات استوار کر لئے تھے۔حتیٰ کہ نیویارک میں کوشنر سے ملاقات کی خاطر ولی عہد اور ان کے برادر عبداللہ بن زید نے امریکی صدر بارک اوبامہ کے ساتھ طے شدہ میٹنگ منسوخ کی۔ بتایا جاتا ہے کہ امارتی ولی عہد نے ہی امریکیوں کو قائل کیا کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی پشت پناہی کرکے سی آئے کے چہیتے محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلہ کی حمایت کریں۔ اس طرح 2018 تک اسرائیل کے کئی وزیروں نے امارات کے دورے کئے، مگر ہر بار بتایا جاتا تھا ، کہ ان کا دونوں ملکوں کی سیاسی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی سال اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کارٹز بغیر پیشگی اطلاع ابوظہبی پہنچ گئے اور ایران کے خطرات سے امارتی حکمرانوں کو آگاہ کرکے تعاون کی پیشکش کی۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبار یسرائیل حایوم کے مطابق خود نیتن یاہو بھی اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے سربراہ میئر بن شابات کے ہمراہ دوبا ر امارات کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں۔ اس دوران امارات نے تیل تنصیبات کی سیکورٹی کیلئے اسرائیل کی ایک فرم اے جی ٹی انٹرنیشنل کو 800ملین ڈالر کا ٹھیکہ دے دیا ۔ خیر متحدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے اس خدشہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ عرب حکمران اپنے آپ کو کس قدر غیر محفوظ، غیرمستحکم اور کمزور محسوس کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ اور خطے میں اس کا قریب ترین اتحادی اسرائیل ہی ان کی بقاء کا ضامن ہے۔ مگر بین الاقوامی سیاست اور تزویراتی حکمت علمی کے قواعد ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل ان کی کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر ان کو عوامی تحریکوں و پڑوسیوں سے مزید خائف کرواکے اپنے مفادات کی تکمیل کرینگے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمران اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پرکان لگا کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکال کر اسرائیل اور امریکہ کو مجبور کرکے فلسطینی مسئلہ کا حل ڈھونڈ کر خطے میں حقیقی اور دیرپا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔