1969ء کی بات ہے‘ رباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی جس میں بھارت کو بھی مبصر کے طور پر بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلہ کرنے والوں کا موقف تھا کہ بھارت میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں اور یہ دنیا کی دوسری بڑی مسلمان آبادی ہے اس لئے اسے تنظیم کا مبصر بنانے میں کوئی خرابی نہیں بلکہ فائدہ ہی ہے۔ پاکستان نے اس پر سخت اعتراض کیا اور کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی۔ اس پر فیصلہ منسوخ ہو گیا۔ یہ نصف صدی پرانا واقعہ ہے۔ اگلے مہینے کی یکم تاریخ کو (جس کے بیچ اب دو تین دن ہی رہ گئے) دبئی میں اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہونے والی ہے۔ اس میں بھارت کو بطور ’’مہمان‘‘ بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مہمان اور مبصر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کوئی سفارتی ڈکشنری ہی بتا سکتی ہے لیکن بظاہر تو الفاظ ہی مختلف ہیں‘ معنی کچھ خاص فرق نہیں رکھتے۔ بھارتی حکومت نے شرکت کا دعوت نامہ دینے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت میں اٹھارہ انیس کروڑ مسلمان ہیں۔ ہو سکتا ہے سوامی جی کا دعویٰ درست ہو۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ نصف صدی پہلے جو بات سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی‘ اب ہو رہی ہے بلکہ شاید ہو چکی ہے۔ اس کانفرنس میں مہمان تو اگلی کانفرنس میں باقاعدہ مبصر ‘ عین فطری لگتا ہے۔ کیا خیال ہے؟ بھارت میں 14فیصد مسلمان ہیں‘ اسرائیل میں مسلمانوں کا تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی 18فیصد۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو خاص اسرائیل میں رہتے ہیں اس کے عملاً زیر قبضہ فلسطینی ریاست میں رہنے والے 50لاکھ مسلمان الگ ہیں۔ انہیں شامل کیا جائے تو اسرائیل شاید مسلمان اکثریتی ملک ہو۔ بھارت مبصر بن سکتا ہے تو اسرائیل کیوں نہیں۔ پکا پتہ‘ کچھ برسوں بعد اسلامی کانفرنس کی وزرائے خارجہ کانفرنس ’’القدس‘‘ پر اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرتی پائی جائے اور دیکھا جائے کہ مبصر کے طور پر موجود اسرائیلی وزیر خارجہ اس قرار داد پر ’’ڈیسک‘‘ بجا رہا ہو۔ قیامت کی نشانیاں ہیں اگرچہ’’روایات قیامت‘‘ والی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ’’عرب بہار‘‘ کا دوسرا باب شروع ہونے کی؟ زیادہ امید تو نہیں لیکن کچھ کچھ آثار ایسے ہیں کہ شاید کا لفظ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کم از کم دو عرب ملک بہت زیادہ بے چینی کا شکار ہیں۔ ایک سوڈان دوسرا الجزائر۔ سوڈان میں ڈیڑھ ماہ سے عوامی مظاہرے جاری ہیں جو صدر عمر البشیر کے خلاف ہو رہے ہیں۔ صدر عمرالبشیر ان مظاہروں کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور حالات پر قابو پانے کے لئے انہوں نے اپنے وزیر اعظم کی حکومت برطرف کر کے نگران کابینہ بنا دی ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ اپوزیشن کے جائز مطالبات پر اس سے مذاکرات کرے۔ یوں صدر خود کو ’’بھولا‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کا ایک ہی ’’جائز‘‘ مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ صدر عمرالبشیر مستعفی ہوں۔ نگران کابینہ اپوزیشن کا یہ ’’جائز‘‘ مطالبہ سن تو سکتی ہے۔ اس پر کچھ کر نہیں سکتی۔ حالات سے لگتا ہے کہ صدر عمرالبشیر کو گھر جانا پڑے گا۔ الجزائر کے صدر بوتفلیقہ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ وہ پانچویں بار صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ الجزائر میں دو عشروں کے دوران یہ پہلے عوامی مظاہرے ہیں۔ بوتفلیقہ بوڑھے بھی ہیں اور بیمار بھی لیکن اسٹیبلشمنٹ کو ان جیسا جوہر قابل اور کوئی فی الحال نہیں مل رہا۔ وہ 1999ء میں پہلی بار صدر بنے تھے۔ اب وہ 82سال کے ہیں اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں۔ الجزائر میں الیکشن آزادانہ نہیں ہوتے۔ کہنے کو اپوزیشن بھی موجود ہے اور اس میں اسلامی دھڑے بھی لیکن سسٹم ایسا ہے کہ فوج کی مرضی والی جماعت ہی الیکشن جیتا کرتی ہے(جتوائی جاتی ہے) اسلامی دھڑوں کو علامتی نمائندگی سے زیادہ طاقت ملنے نہیں دی جاتی۔ یوں بھی ان میں تقسیم در تقسیم ہے۔ الجزائر کے پہلے اور آخری آزادانہ الیکشن 1991ء میں ہوئے تھے جس میں اخوان المسلمون (اسلامک سالویشن فرنٹ) بھاری اکثریت سے جیت گئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ اسے اقتدار منتقل ہوتا‘ فوج نے مداخلت کی۔ مارشل لاء لگا دیا اور اخوان قیادت اور کارکنوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ اس نے ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ جو دس سال جاری رہی اور اس میں 2لاکھ افراد مارے گئے۔ زیادہ تر عام شہری تھے جو حکومتی دستوں کی فائرنگ اور گولہ باری سے مارے گئے۔ اسلامک فرنٹ کا دستیوں ہزار کارکن شہید ہوئے۔ ہزاروں فوجی بھی مارے گئے۔ تب سے ملک پر سیکولر امریکہ نواز طاقتوں کا غلبہ ہے۔ اسلامی تشخص کی مخالفت کی جاتی ہے اور اسلامی سیاسی جماعتیں زیادہ طاقتور نہیں۔ انہوں نے حالیہ صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ یوں مقابلہ سیکولر جماعتوں کا آپس میں ہے اور جیتے گا وہی جو پیا من بھائے۔ فی الوقت زیادہ مضبوط اسلامی پارٹی سماجی تحریک برائے امن(ایم ایس پی) ہے جس کے رہنما عبدالرزاق مکرمی ہیں۔ موجودہ 462رکنی پارلیمنٹ میں اس کے 33ارکان ہیں۔ دوسری بڑی اسلامی جماعت النہفینہ(الاصلاح پارٹی) ہے۔ اسلامی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن جیت سکتی ہیں لیکن فوج نے ’’نتائج‘‘ پہلے سے مرتب کر رکھے ہیں اس لئے الیکشن لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ صدارتی الیکشن 8اپریل کو ہونے ہیں۔ اس کے بعد وہاں کسی نہ کسی ہلچل کی توقع کی جا رہی ہے۔