پاک سعودی تعلقات میں مدوجزر نئی بات نہیں‘ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ مدوجزر دوررس تلخی کا موجب کبھی نہیں بنا‘ پاکستان کی سول و فوجی قیادت کو اپنی مجبوریوں کا احساس رہا تو سعودی قیادت نے بھی یہ بات کبھی فراموش نہ کی کہ پاکستان عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے‘ حرمین شریفین کی حفاظت کا فریضہ خلوص قلب اور انشراح صدر کے ساتھ صرف پاکستان سرانجام دینے کی پوزیشن میں ہے اور خطے میں پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن دیگر مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب کے لئے باعث تقویت۔شاہ محمود قریشی کے ایک ٹی وی انٹرویو کے بعد پاکستان میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے تو محتاط طرز عمل اختیار کیا مگر سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں اور افواہوں کا بازار گرم رہا‘وزیر خارجہ کے بیان کو پس پردہ دبائو کا ردعمل قرار دیا گیا جس کا سعودی حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کو سامنا ہے‘ یہ تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کو مختلف علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر امریکہ و بھارت کے دبائو کے ساتھ برادر ملک کی فرمائشوں کا بھی سامنا ہے مثلاً مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر شدومد سے نہ اٹھانے‘ چین‘ ترکی‘ ملائشیا اور ایران کے ساتھ گرم جوشی میں احتیاط برتنے‘ سی پیک کے منصوبے پر نظرثانی کی فرمائش وغیرہ وغیرہ۔ بلا شبہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ماضی کے سعودی حکمرانوں کے برعکس مزاج اور انداز فکر کے حامل ہیں۔ کوالالمپور کانفرنس کے موقع پر ان کا ردعمل پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے حیران کن تھا۔ پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل کی ترسیل روکنے اور سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کی دھمکی سے پاکستانی حکام چکرا گئے اور وزیر اعظم عمران خان جیسے شخص کو بھی کوالالمپور جانے کے فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑی لیکن ہر بار ایسی دھمکی کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور نہ دیرینہ دوطرفہ تعلقات یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان دوستوں کا دبائو ایک حد تک قبول کرتا اور اپنی مجبوریوں کو خاطر میں لاتا ہے لیکن ضرورت سے زیادہ دبائو اور اپنے قومی وقار کی قربانی کے اندیشوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔پاک امریکہ تعلقات میں مدوجزر اور بالآخر امریکہ سے دفاعی‘ سفارتی فاصلے اس کا ثبوت ہیں‘ ایران عراق جنگ کے دوران پاکستان تنے ہوئے رسے پر کامیابی سے چلتا رہا اور عراق میں امریکی مداخلت کے ہنگام بھی اس نے سپر پاور کا دبائو خندہ پیشانی سے برداشت کیا‘ سعودی عرب اپنی سکیورٹی کے حوالے سے جتنا اعتماد پاکستان پر کر سکتا ہے کسی دوسرے ملک بالخصوص امریکہ اور بھارت پر نہیں۔ بھارت سے تجارت مختلف معاملہ ہے اور سلامتی کے معاملات میں تعاون بالکل جداگانہ امر۔ ویسے بھی جوں جوں تیل پر دنیا کا انحصار کم ہو رہا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دولت و امارت اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں عرب ممالک کی عالمی و علاقائی اہمیت میں کمی آ رہی ہے اور اگر خدانخواستہ عرب ممالک نے سائنس و ٹیکنالوجی‘علوم و فنون کے شعبوں میں مہارت پیدا نہ کی تو بات چالیس اور پچاس کے عشرے تک پہنچ سکتی ہے جب پاکستانی مساجد میں اعلان ہوتا تھا کہ ایک ’’عرب صاحب ‘‘گائوں کے مہمان ہیں براہ کرم اپنی حق حلال کی کمائی سے ان کی مدد فرمائیں اور لوگ حرمین شریفین سے نسبت و عقیدت کے باعث حسب توفیق طوب وعقال پوش عرب صاحب کو ہدیہ پیش کرتے۔ نواب صاحب بہاولپور سر محمد صادق خان اور دیگر روساء حج کے موقع پرکافی مقدارچاول‘ آٹا‘ گڑ اور دیسی گھی حجاز مقدس لے جاتے اور عرب مساکین میں تقسیم کرتے‘ایک بار نواب صاحب نوخرید مرسڈیز گاڑی بحری جہاز میں لوڈ کر کے مکّہ معظمہ لے گئے تو مرحوم سعودی حکمران ہر شام نواب صاحب کے پاس حاضری دیتے اور لانگ ڈرائیو کے مزے لیتے۔ چین کی طرح سعودی عرب کے پاکستان پر احسانات ہیں تو پاکستان بھی ماضی میں ان دونوں ممالک کے لئے ناقابل فراموش خدمات انجام دے چکا ہے جس کا اعتراف اگر کسی ملک کا حکمران نہ کرے تو احسان فراموشی ہے۔1985ء کے بعد پاکستان میں جس طرح کی سیاست کا چلن عام ہوا‘ ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنی اور قومی عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر عرب حکمرانوں سے فدویانہ روابط قائم کئے‘قیمتی تحائف کی وصولی کو شعار کیا اور اندرون ملک اقتدار کی لڑائی میں ان حکمرانوں کی اشیر باد حاصل کرنے کے لئے غلامانہ طرز عمل اختیار کیا‘ اس کا خمیازہ نیوکلیر اسلامی ریاست کو بھگتنا پڑا کہ جس عرب ریاست کے حکمرانوں کا استقبال پاکستان میں ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر کیا کرتا ‘اب ہمارا وزیر اعظم اس کے شہزادے کی ڈرائیونگ کو اعزاز سمجھتا ہے اور ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدیدار ان ریاستوں کے اقامہ ہولڈر ہیں۔ وقت مگر ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا‘ مشکل کی یہ گھڑی بھی گزر جائے گی کہ ’’ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘ بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ سعودی حکمرانوں کی صحرائی دانش پاکستان کی اہمیت و افادیت سے بخوبی آگاہ ہے اور چین کی طرح سعودی حکمرانوں نے بھی پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کو کبھی دوستانہ تعلقات پر اثرانداز ہونے دیا نہ چھوٹے موٹے واقعات سے برہمی کا شکار ہوئے۔ اسرائیل سے عرب امارات کے تعلقات کی بحالی پر پاکستان نے محتاط ردعمل دیا۔ ایران عرب کشمکش میں پاکستان ہمیشہ اصولی موقف پر قائم رہا کہ مسلم ریاستوں کے مابین کشمکش میں ہمارا کردار فریق کا نہیں ‘صلح جو اور مصالحت کار کا ہو گا۔ امریکہ پر عربوں کا انحصار اور پاک چین و ترکی ملائشیا تعلقات میں مزید وسعت اور گہرائی سے پاک سعودی تعلقات بھی دونوں برادر ممالک میں رخنہ اندازی کا موجب نہ بنیں تو بہتر ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت تازہ واقعات پر سنجیدگی سے غور و فکر ضرور کرے کہ عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔ دشمنوں کے بجائے اگر مہربان دوست انسان کو سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کا موقع فراہم کریں تو یہ مقام شکر ہے شکوہ و شکایت کی ضرورت نہیں۔ قرض کی مے پینے والوں کی فاقہ مستی نے ایک نہ ایک دن رنگ لانا ہی تھا‘ پریشانی کا فائدہ؟سبق آموزپشیمانی البتہ راستے کھولتی ہے۔ خضر علیہ السلام بھی راستہ تلاش کرنے والوں کی رہنمائی اور دست گیری کرتے ہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے والوں کا مقدر ندامت ہے‘ احساس زیاں البتہ کاررواں کو شرمندگی سے بچاتا ہے۔