فرمایا: اور ہم تمہیں آزمائیں گے ، کچھ خوف اور بھوک سے اور اموال اور جانوں کے نقصان سے اور باغوں کی بربادی سے ۔خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کے لیے ۔ مصیبت جب انہیں پہنچتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں : ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ ’’کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ قرآنِ کریم میں کیا لکھا ہے ۔ فرمایا: اے زمین و آسمان ‘میں نے تم میں احکام رکھ دیے ہیں، کچھ حکم رکھ دیے ہیں ۔ مرضی سے آئو یا مجبوری سے ،تمہیں آنا ہی پڑے گا ۔ زمین وآسماں نے کہا : اے مالک و کریم، ہماری مجال کیا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے آئیں گے ۔ ہم تشکر سے آئیں گے ۔ آدمی کی بات دوسری ہے ۔ اسے آزادی بخشی گئی ۔ ارادہ و اختیار بخشا گیا ۔ انسان کو اللہ نے تخلیق کیا۔ میں اس قابل نہ تھا کہ اپنا خدا تخلیق کرتا، ربّ ِکائنات کو تخلیق کرتا ۔ آدمی کو اس نے بنایا ہے اور وہی اسے جانتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ آد می اس قابل نہیں کہ زمین پر زندگی بسر کرنے کے قرینے مرتب کر سکے ۔آدمی کی رہنمائی کے لیے سب سے پہلے نزولِ انبیاؑ ہوا ۔ نبی کا مطلب ہے ، غیب کی خبر بتانے والا ۔ منزلیں طویل تھیں ۔ فاصلے بہت زیادہ تھے ۔ ایک ایک ملک میں بیس بیس نبی آیا کرتے ۔ آلات نہیں تھے ، پیغام پہنچانا سہل نہ تھا ۔ ایک ایک علاقے میں پانچ پانچ ،چھ چھ نبی ہوتے ۔ کسی چھوٹے سے گروہ کا ہادی ۔ قیامت میں کچھ نبی ایسے بھی آئیں گے ، جن کے ساتھ صرف ایک امتی ہوگا ۔ اس محدودیت کی وجہ سے نبی،رسول نہ بنائے گئے ۔ ان کے پاس کتاب نہیں آئی ۔ اللہ کا پیغام انہوں نے پہنچایا مگر زبانی ۔ احکام بھی تھوڑے تھوڑے آرہے تھے، ایک ایک کر کے ۔ یہی قرآن تھا، تب بھی یہی قرآن تھا۔ آیت در آیت اتر رہا تھا۔ آدمؑ کو ایک آیت دی جا رہی تھی ، نوحؑ کو دو آیتیں دی جا رہی تھیں ۔ جستہ جستہ نزول تھا ۔ پھر شہری آبادیاں منسلک ہونے لگیں۔ لوگ یکجا ہونے شروع ہوئے ۔ پیغام کی ترسیل آسان ہو گئی ۔ تعداد میں لوگ بڑھ گئے تو تمدن کا آغاز ہوا ۔ پھر انبیاء کی جگہ مقتدر ، اولو العزم اور صاحبِ مرتبہ رسولوں کو بھیجا گیا ۔ پھر دائودعلیہ السلام آئے، موسیٰ علیہ السلام آئے۔جنابِ عیسیٰؑ آئے۔ پھر بھی پیغام بہت دور تک نہ جا سکتا تھا ۔ بلوغتِ فکر جاری تھی ۔ انسان کا ذہن کبھی 750سی سی تھا ۔ پھر 850سی سی ہوا۔ پھر ایک جھٹکا لگا اور 1350سی سی پر چلا گیا ۔تہذیب و تمدن کے فروغ سے ، ہزاروں برس کے انسانی تجربے میں آدمی سیکھتا گیا ۔ اب پیغام کی تکمیل کا وقت آپہنچا تھا ۔ تب رسولِ اکرمﷺ تشریف لائے ۔ کیا کوئی مذہبی معاشرہ مقصود تھا ؟ اگر ایک کیمونسٹ معاشرہ ہے ۔ اگر ایک جمہوری معاشرہ ہے تو کیا خالق کو مخلوق کا مقابلہ کرنا تھا کہ ان کے مقابل وہ ایک مذہبی معاشرہ تخلیق کرتا ۔ نہیں ، بالکل نہیں ۔ مذہبی اساس پر مبنی معاشرے کی تشکیل اگر تھی بھی تو اس زمین کے لیے نہیں ۔ مقصود اس کا اخروی زندگی تھا ۔ شریعت کے مطابق ۔اور شریعت کی تعریف یہ ہے ’’وہ کم سے کم زادِ راہ ، جو مسافر کو منزل تک پہنچا دے ۔‘‘ وہ اصول ، وہ طریقِ زندگی ، جو آدمؑ کی اولاد کو سیدھی راہ پر گامزن رکھے ۔ کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو ۔ سینہ ء انسان میں غمِ منزل تھا ۔ اللہ سے جدائی کا احساس تھا ۔ ایک خلش تمام وقت بھی کہ کبھی نہ کبھی ہم اپنے پروردگار کی صحبت پائیں گے ۔کبھی نہ کبھی اس کے دربار تک رسائی ہوگی ۔ اس مقصد کے لیے آپ کو شرعی نظام دیا گیا ۔ یہ آسان راستہ ہے اور یہی شریعت کا مقصد ۔ پھر تصوف کیا ہے ، طریقت کیا ؟ جیسا کہ ہمیشہ عرض کیا :طریقت شریعت کی نیت ہے ۔ خیمے کا وہ ستون ، جس پر وہ بلند ہوتا اور ٹھہرتا ہے ، حسنِ نیت ۔ ستون کو نکال دیا جائے تو خیمہ دھڑام سے نیچے آگرے۔ نیت خدا سے جاملنے کی ہو تو مذہب صوفیائی ہو جاتا ہے۔ وصالِ خدا وند کی اگر آرزو نہ ہو تو مذہب صرف ایک رستہ رہ جاتا ہے ۔ ایک زندگی ہے ، جو خدا کے بغیر ہے ۔ ایک زندگی ہے ، جو خدا کے ساتھ ہے ۔ ہزار سوال حیاتِ انسانی میں ابھرتے ہیں ، ابھرتے رہتے ہیں ۔ آخر میں فقط ایک رہ جاتاہے کہ خدا کو مانتے ہو یا نہیں مانتے ؟ کیا سب سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈنا چاہئیے ؟ ہم ماننے والے ہیں اور ان سے مختلف ہیں ، جو نہیں مانتا وہ قبر تک ہے ، جو مانتا ہے ، وہ ابد الآباد تک ۔خدا کو جو نہیں مانتا ، اس کی زندگی ستّر، اسّی یا نوّے برس ۔ اور جو مانتا ہے ؟ Billions and trillions years of galaxial life۔ کہکشائوں میں اربوں کھربوں برس کی زندگی ۔ کیا یہ چھوٹا سا فرق ہے ؟ ایک نکتہ ء نظر سے میں صرف اپنی موت تک زندہ ہوں ۔ دوسرا یہ ہے کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر اتنا بڑا فرق ہے ؟ اتنا بڑا مسئلہ کہ حل کیے بغیر زندگی کی شاہراہ پہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہمیں آگے نہیں بڑھنا چاہئیے ۔ خدا کو جو نہیں مانتے، اگر انہیں انتخاب کا موقع دیا جائے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اذیت مسلسل ہوگی مگر ایک کروڑ سال کی زندگی ضرور دی جائے گی ؟ میرا خیال یہ ہے کہ اذیت وہ قبول کر لیں گے ، حادثہ ء مرگ سے بچنے کے لیے ۔ شیکسپئر نے کہا تھا : مسلسل اور متواتر اگر دانت کا درد ہوتا رہے ، پھر بھی آدمی جینا چاہے گا، مرنا نہیں ۔ بہت بڑا فرق ہے ، بہت بڑا فرق ہے۔ ہم اگر اللہ پر اعتبار نہ رکھیں تو ہماری زندگی بہت مختصر اور بہت بے معنی ہوگی ۔ پھر میر ے سیکھنے ‘پڑھنے کی کیا وقعت ۔۔۔اور یہ جو میرے ساتھ افتخار عارف صاحب بیٹھے ہیں، ان کے اشعار کی کیا وقعت ؟ اگر میں نے قبر تک ہی جانا ہے ۔ افتخار عارف صاحب نے بھی قبر تک ہی جانا ہے تو مجھے کیا پڑی کہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ریاضت کروں ۔ افتخار عارف کو کیا پڑی کہ اپنا کلام چھوڑ جائے۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ میری قبر پہ آکر وہ میری تعریف کریں گے تو مجھے کوئی سرور حاصل ہوگا؟ جب خاک میں ہڈیاں رل جائیں گی کیا مجھے وہ شہرت خوش آئے گی، جو میں پیچھے چھوڑ جائوں گا ؟ اُس شہرت کا فائدہ کیا، جو مجھے میری زندگی کے بعد ملے ۔ اُس عزت کا کیا فائدہ ؟ خاک میں مل کر اگر خاک ہی ہونا ہے تو بھیڑیے اور آدمی کی زندگی کا فرق کیا ہے ؟ مجھے الگ رکھیے، ایک حیوان اورعمر بھر ریاضت کرنے والا ایک عظیم دانشور ، کیا ان دونوں کا انجام ایک ہی ہونا چاہئیے ۔ کھانا، پینا اور ایک دو بچّے پیدا کرنے کے بعد مٹی میں جا ملنا ۔ Its horrible. It is simply devastating. This idea creates sense of anarchy,absolute anarchy in man.۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے ۔ بالکل خوفزدہ کر دینے والی بات، تباہ کن ۔ آدمی کو انارکی کے حوالے کر دینے والی بات۔اتنی مجبور، اتنی مفلس زندگی ؟ خدائے واحد کا شکر ہے کہ زندگی کی سچائی اس نے ہم پہ واضح کر دی ۔ صاف صاف ہمیں بتا دیا کہ زمین پریہ صرف ایک وقفہ ء حیات ہے ، بہت مختصر سا وقفہ ء حیات ۔ مستقر ومتاع الیٰ حین۔ (البقرۃ :36) یہ بھی واضح کر دیا کہ عرصہ ء امتحان ہے ، زندگی عرصہ ء امتحان ۔صداقتِ اولیٰ کی تلاش اور پھر اس کی مسافت اور اس مسافت کے خم و پیچ ۔ اس سفرکے نشیب وفراز ۔ فرمایا: اور ہم تمہیں آزمائیں گے ، کچھ خوف اور بھوک سے اور اموال اور جانوں کے نقصان سے اور باغوں کی بربادی سے ۔خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کے لیے ۔ مصیبت جب انہیں پہنچتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں : ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ (پروفیسر احمد رفیق اختر کا ایک خطبہ ۔ کالم کی ضرورت کے مطابق جس کی لفظی ترتیب بدل دی ہے ، جاری)