توشہ خانہ ریکارڈ کے بعدبھی اگر ہمیں یہ لگتا ہے کہ عمران خان ہی غلط ہے اور اس کی گھڑی چوری ہی پاکستان کا قومی مسئلہ ہے تو پھر ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم اسی قابل ہیں کہ ہم پہ شریفوں اور ذرداریوں کی نسلیں حکومت کریں‘ہم نسل در نسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گزشتہ پچھہتر برس میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمیں کیسا نظام چاہیے اور ہمیں کیسے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے۔عمران خان پچاس فیصد رقم ادا کر کے گھڑی خریدے تو بھی مجرم اور نواز شریف پورے اہل و عیال سمیت توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کرے ‘پھر بھی کوئی مقدمہ نہیں‘کیا یہ انصاف ہوتا ہے؟توشہ خانہ کا گزشتہ اکیس سالہ ریکارڈ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ گزشتہ ادوار میں نہ صرف وزرائے اعظم اور ان کے اہل خانہ نے کم قیمت پر تحائف خریدے بلکہ ان کے من پسند صحافیوں اور بزنس مینوں نے بھی عیاشیاں کیں۔مرسڈیز گاڑیاں ہوں یا قیمتی قالین اور سونے کے تحائف‘گھڑیاں تھیں یا لیکس صابن‘ گزشتہ سیاست دانوں اور ان کے بچوں نے کچھ بھی نہ چھوڑا ۔صد حیف کہ توشہ خانہ ریکارڈ پبلک ہونے کے بعد بھی نون لیگی اور پی پی وزراء کی ہٹ دھرمی نہ گئی‘اب بھی میڈیا پر ایک بیانیہ جاری ہے کہ ہم دودھ کے دھلے ہیں اور عمران خان گھڑی چور ہے۔کاش یہ لوگ ایک دفعہ یہ بھی وضاحت کر دیں کہ عمران حکومت کی سے پہلے توشہ خانہ سے تحائف خریدنے کا طریقہ کار کیا تھا اور عمران خان نے ملکی خزانے پر رحم کرتے ہوئے اس میں کیا تبدیلی کی‘ اس سے شاید سچ واضح ہو جائے۔ توشہ خانہ ریکارڈ کے بعد بھی مریم نواز کے متکبر لہجے میںفرق نہیں آیا‘کروڑوں روپے کی سرجری کے بعد ان کے چہرے سے رعونت ختم نہ ہو سکی۔ایک طرف عمران خان جسے اسی سے زائد کیسز میں پھنسایا گیا ہے‘اسے رستے سے ہٹانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں اور دوسری جانب ’دختر ِ مشرق‘ کو کھلی چھٹی‘وہ الیکشن کپمین بھی کر رہی ہیں اور معزز عدلیہ پر بے تحاشاتنقیدبھی‘فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف بھی محاذ کھڑا کر رکھا ہے‘اس کے باوجود اسے نہ توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجا جائے گا اور نہ ہی فوجی قیادت اسے کچھ کہے گی کیونکہ اس وقت سب سے بڑا ’قومی مسئلہ‘ عمران خان کی مقبولیت ہے۔اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ پاکستان کے سب سے مقبول سیاست دان کو جبری قیدی بنایا جارہا ہے اور گزشتہ چالیس سال سے ملک پر ہاتھ صاف کرنے والوں کو ایک دفعہ پھر این آر او دے کر اقتدار تک پہنچایا جا رہا ہے۔حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب گیارہ جماعتوں کے سہولت کار سب جانتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں‘وہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور یہی ان کی غلط فہمی ہے۔اب صورت حال بہت مختلف ہو چکی ہے‘عوام میں گہرا سیاسی شعور آچکا‘اب میڈیا سچ نہ بھی دکھائے تب بھی عوام سب جانتے ہیں‘ انھیں کسی بھی طرح سچ سے دور نہیں رکھا جا سکتا‘لہٰذا امپورٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں کو یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ عمران خان کی گرفتاری اب نفرت کو محبت میں نہیں بدل سکتی۔اس قوم نے پچھہتر سال آنکھیں بند کر کے گزار دیے‘اب ایسا نہیں ہوگا‘اب سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ہی سمجھا جائے گا۔ عمران خان کی گرفتاری سیاسی نظام کو مزید برہنہ کر دے گی‘پی ڈی ایم کا ہر قدم ان کے اپنے خلاف زہر بن رہا ہے‘عمران خان کی مقبولیت ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے الیکشن سے اسے شکست دینا جو فی الوقت ناممکن ہو چکا۔بیرونی سازش کے فوری بعد اگر الیکشن کروا دیے جاتے تو شاید عمران خان اسمبلی میں دوبارہ واپس نہ جاسکتے مگراب بہت دیر ہو چکی۔عدالتی حکم کے باوجود الیکشن ملتوی کر دیے جائیں تب بھی حالات تبدیل نہیں ہوں گے‘موجودہ حکومت ایکسٹینشن کے بعد بھی عمران کی مقبولیت میں کمی نہیں لا سکتی لہٰذا حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے عمران کا نہیں بلکہ اپنا ہی ستیا ناس کر رہی ہے۔موجودہ سیاسی جنگ و جدل کا واحد حل الیکشن ہے ‘ سیاسی انتقام کی فضا کو ختم کر کے الیکشن مہم کی جانب توجہ دی جائے‘الیکشن کے بعد باقی کاروائیاں کر لی جائیں‘ایسے میں ممکن ہے سیاسی ماحول بہتر ہو جائے ورنہ موجود حالات کسی قیامت کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ زمان پارک کے باہر پولیس کی نفری دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے عمران خان خدانخواستہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے‘اگر اسے جلد از جلد گرفتار نہ کیا گیا تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کاش ہماری پولیس اتنی پھرتی اس وقت بھی دکھاتی جب قانون کے ساتھ جھوٹ بول کر فرار ہونے والے ہمارے اداروں کو دھکمیاں دے رہے تھے‘لندن میں بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کے بارے جب نواز شریف انتہائی تلخ زبان استعمال کر رہے تھے‘ہمارے اداروں کو اس وقت یہ پھرتیاں کیوں نہیں یاد آئیں۔ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے‘کیا ریاست اور ریاستی اداروں کے یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھیں۔ایک ہی غلطی کرنے والے دو افراد کی سزا مختلف کیسے ہوسکتی ہے؟اگر عمران خان توشہ خانہ ریفرینس میں گرفتاری دے گا تو پھر اکیس تو کیا گزشتہ پچھہتر سالہ ریکارڈ سامنے لایا جائے گا اور ہر اس شخص کو گرفتار کیا جائے گا جس نے توشہ خانہ کو باپ کا مال سمجھا۔ایسے نہیں ہو سکتا کہ عمران خان پچاس فیصد پیسے ادا کر کے تحفہ لیں تو چور کہلائیں اور شریف و ذرداری خاندان مرضی کی قیمت دے کر تحائف لے جائیں تب بھی محب وطن کہلائیں ۔ریاستی اداروں کو امتیازی سلوک ختم کرنا ہوگا اور یہی ملکی سلامتی کے لیے بہتر ہے ورنہ صرف ایک عمران خان کی وجہ سے جیسے پورے ملک کو نفرت کی آگ میں گھسیٹا جا رہا ہے‘یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ایک طرف اکیلا عمران خان اور دوسری جانب ملک کی گیارہ سے زائد سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے، یہ سب کیا ہے؟خدارا ملک پر رحم کریں ورنہ اس ملک کا ہر بچہ نفرت سے بھرا پڑا ہے اور اس دن سے ڈریں جب یہ نفرت کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔