سچی بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سابق معاون خصوصی عرفان صدیقی کی جمعہ کے روز آدھی رات کو آناً فاناً گرفتاری سمجھ میں آئی اور نہ ہی اتوار کے روز بند عدالتیں کھلوا کر ان کی رہائی سمجھ میں آئی : کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے برادر عزیز عامر خاکوانی نے ایک کالم میں جناب عرفان صدیقی کے حوالے سے چند سادہ سے سوال پوچھے ہیں۔ برادر عزیز کو یقینا ادراک ہو گا کہ یہ ’’سادہ سوال‘‘ہی دراصل بہت مشکل سوال ہوتے ہیں جن کے جوابات ڈھونڈتے ہوئے اہل اقتدار کی جبینیں شکن آلود بھی ہو جاتی ہیں اوربعض اوقات عرق آلود بھی۔ ہمارے ملک کی تاریخ دلچسپ ہے یہاں ہر حکمران جمہوریت کے نام پر وہی پرانی آمرانہ غلطیاں دہراتا ہے اور سمجھتا یہ ہے کہ وہ اپنی سمجھداری اور عقل مندی کی بنا پر اس انجام سے دوچار نہ ہو گا کہ جس سے اس کے پیش رو ہوتے رہے ہیں۔ ہفتہ کے روز عرفان صدیقی کو عدالت میں اس شان سے پیش کیا گیا کہ ان کے ہاتھ پر ہتھکڑی بندھی تھی اور انہوں نے ہاتھ میں کھلا ہوا قلم پکڑ رکھا تھا۔ عدالت میں ان پرجو الزام لگایا گیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے مکان کا ایک پورشن کرائے پر اٹھایا ہے مگر اس کی اطلاع پولیس کو نہیں دی۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق جس مکان کے پورشن کو کرائے پر بلا اطلاع دینے کی بات کی گئی وہ عرفان صدیقی صاحب کا نہیں ان کے بیٹے عمران صدیقی کاہے جو دوبئی میں مقیم ہے۔ عرفان صدیقی کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ جس مکان کی بات کی جا رہی ہے وہ عرفان صدیقی کی ملکیت نہیں ہے۔ اس وضاحت کے باوجود جج نے وکلاء کی ایک نہ سنی اور پولیس کے مطالبے پر صدیقی صاحب کا چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا۔ عمومی طور پرایسا نہیں ہوتا۔ جب عرفان صدیقی کی ہتھکڑی اور قلم والی تصویر میڈیا اورسوشل میڈیا پر سامنے آئی تو عرفان صدیقی کے دوستوں اور مخالفین سب نے ایک 78سالہ بزرگ استاد‘ صحافی ‘ کالم نگار اور نہایت ہی معزز دانشور کی یوں گرفتاری پر شدید احتجاج کیا۔ حتیٰ کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ڈاکٹر شہباز گل جیسے حکومتی مشیروں کو بھی اس گرفتاری کی مذمت کرنا پڑی۔نہ جانے یہ گرفتاری کس عالی دماغ کی منصوبہ بندی اور حکم پر ہوئی کہ جس کے نتیجے میں حکومت کے حصے میں خفت ہی خفت اور مسلم لیگ کے حصے میں فائدہ ہی فائدہ آیا۔ میں 2004ء میں طائف سعودی عرب میں 20برس سے زیادہ سعودی وزارت تعلیم میں خدمات انجام دے کر سیدھا انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد واپس آیا۔ جناب عرفان صدیقی سے آشنائی تو بہت پہلے سے تھی ہم بھی ان کی خوبصورت کالم نگاری اور ان کی بے مثال انشاء پردازی کے اسیر تھے۔ان دنوں صدیقی صاحب روزنامہ نوائے وقت میں لکھتے تھے اور فقیر بھی اسی اخبار میں خامہ فرسائی کرتا تھا اس لحاظ سے صدیقی صاحب میرے کالم نگار پڑوسی بھی تھے۔ ان سے اسلام آبادمیں رسم و راہ چل نکلی جو دوستی اور احترام ‘ باہمی میں بدل گئی۔ میں 2010ء میں اسلام آباد سے اپنے شہر سرگودھا چلا گیا۔ میں یونیورسٹی آف سرگودھا میں پروفیسر تھا۔ یہ غالباً 2013ء کی بات ہو گی جب ہم نے عرفان صدیقی کو یونیورسٹی آف سرگودھا مدعو کرنے اور طلبہ سے خطاب کرنے کا پروگرام بنایا۔ میں نے اپنے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری صاحب سے اس پروگرام کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ صدیقی صاحب بڑے کالم نگار ہیں‘ کیا سرگودھا آ جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ مجھے امید ہے وہ فقیر کی درخواست کو قبول فرما لیں گے۔ قصہ مختصر صدیقی صاحب یونیورسٹی آف سرگودھا آئے اور انہوں نے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال میں طلبہ و طالبات سے خطاب کیا۔ صحافت‘ سیاست اور تاریخ پاکستان کے بارے میں انہوں نے نہایت فاضلانہ باتیں بڑے دل نشیں انداز میں یوں بتائیں جیسے باپ اپنے بچوں کو شفقت سے بتاتا یا استاد اپنے شاگردوں کو سمجھاتا ہے۔2013ء میں ہی غالباً عرفان صدیقی صاحب نے دوسری بار اقتدار کا قرب نواز شریف کے معاون خصوصی کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔ ان پانچ برسوں میں عرفان صدیقی سے ملاقاتیں کم ہو گئیں۔ البتہ دعا و سلام کا سلسلہ جاری رہا۔ چند ہفتے پہلے میں اسلام آباد کے گردو نواح میں ایک پہاڑی مقام کی سیاحت کے لئے گیا ہوا تھا۔ صدیقی صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ملاقات کے لئے چلے آئو۔ اگلے دن کا وقت طے ہوا۔ عرض کیا کہ اب آپ کے گھر کا کیا نمبر ہے۔ کہنے لگے تم ہمارا گھر بھول گئے ہو میں نے کہا کہ میرا اندازہ تھا کہ اب آپ اسلام آباد کے کسی نئے بنگلے یا فارم ہائوس میں منتقل ہو گئے ہوں گے۔ صدیقی صاحب کہنے لگے بھائی! وہی جی تھری والا مکان۔ جی سیکٹر کو اسلام آباد والے فار جنرل پبلک کہتے ہیں۔ صدیقی صاحب سے ڈیڑھ دو گھنٹے ملاقات ہوئی۔ عام تاثر کے برعکس ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ اس سارے عرصے میں نواز شریف کو کسی بھی موقع پر شدید ردعمل کے اظہار سے اجتناب کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ آج کی صورت حال کے بارے میں صدیقی صاحب کے ہاں تلخی نہیں فکر مندی پائی جاتی ہے۔ صدیقی صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ وہ شاید اپنے زمانہ اقتدار سمیت پاکستان کی سیاسی تاریخ پر قلم اٹھائیں گے۔ اب تو ہمارے پرجوش حکمرانوں نے صدیقی صاحب کواپنی کتاب کے لئے ٹائٹل پیج تصویر بھی مہیا کر دی ہے۔ ابلاغی نقطہ نظر سے ’’ہتھکڑی لگے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے قلم سے بڑھ کر اورکون سی تصویر مناسب ہو گی۔واشنگٹن میں دم رخصت عمران خان نے ممتاز صحافی شاہین صہبائی سے ایک بے تکلف ملاقات کی۔ اس ملاقات کا آغاز شاہین صہبائی ہی کی زبانی سنیے۔ ’’میں ابھی سنبھل کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ عمران نے سوال داغ دیا میں اس میڈیا کا کیا کروں یہ ناقابل برداشت حد تک بے لگام ہو چکا ہے میں سب کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر کچھ تو زیادہ ہی شرانگیز ہو چکے ہیں‘‘ جناب عمران خان اقتدار میں آ کر یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ 2014ء کے دھرنے سے لے کر 2018ء کی انتخابی مہم تک ان کی ساری جنگ آزاد میڈیا نے ہی لڑی۔ عمران خان کے کچھ مشیر انہیں تاریخی حقائق کو نظرانداز کرنے اور میڈیا کو خاموش کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال کے بعد تو شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے اس ’’رسم کہنہ‘‘ کو دہرانے کا مشورہ عمران خان قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ واجب الاحترام اساتذہ اور صحافیوں کی گرفتاریاں حکمرانوں کے لئے نیک نامی کا باعث نہیں بنتیں۔ جناب عمران خان میڈیا پر نہیں معیشت پر توجہ مرکوز کریں۔ ٭٭٭٭٭٭