عسکریت کے موضوع سے میرا تعلق تقریبا 32 برس پر محیط ہے۔ ان 32 برسوں کے ابتدائی دس سال میں حرکت المجاہدین اور حرکت الانصار کا حصہ رہا ہوں۔ پھر خاص طور پر حرکت الانصار کا میں نومبر 1994ء سے اکتوبر 1997ء تک ناظم اطلاعات و نشریات بھی رہا۔ اکتوبر 1997ء میں عسکریت سے راہیں الگ کیں تو تب سے تادم تحریر ایک تجزیہ کار کے طور پر اس موضوع پر غور فکر ہی میرا خصوصی میدان چلا آرہا ہے۔ اپنے اس غوروفکر کے نتیجے میں میں نے ایک ہولناک حقیقت دریافت کی ہے جس کی جانب پیشہ ور عسکری ماہرین کی بھی توجہ نہیں گئی۔ اس طویل سیریز کے آخری حصے میں عسکریت کے اس سب سے تباہ کن پہلو کی جانب متوجہ کرانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے آج تک کسی جرنیل سے بھی اس کا تذکرہ نہیں سنا۔ سو لازم ہے کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی یا اس جیسے دیگر ادارے اس پہلو پر اکیڈمک سطح کا غور فکر کرکے اسے مزید گہرائی میں جاکر اس کے رموز و اسرار کو دریافت کریں۔ میرا مطالعہ و مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب دنیا کے کسی خطے میں کسی کاز کے لئے عسکری تنظیم وجود میں آتی ہے تو یہ فرسٹ جنریشن عسکریت پسند اپنے کاز پر ہی فوکسڈ ہوتے ہیں اور ان کی سب سے زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ معصوم شہری نقصان سے دوچار نہ ہوں۔ کیوبا میں فیڈل کاسترو کی عسکریت، فلسطین میں حماس وغیرہ اور افغانستان میں افغان مجاہدین اس کا ثبوت ہیں۔ اگر یہ فرسٹ جنریشن اپنا کاز حاصل ہوتے ہی غیر مسلح نہ ہوجائے تو آس پاس ہی کہیں ایک سیکنڈ جنریشن عسکریت جنریٹ ہوکر سر اٹھا لیتی ہے جو عام آدمی کے لئے بھی مہلک ثابت ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد ایک تھرڈ جنریشن عسکریت بھی آتی ہے جو مہلک ترین ہوتی ہے کیونکہ ارتقا کے نتیجے میں ان کا ہر رکن ایک قصائی ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے تین مختلف خطوں میں اس کی نظیریں دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ نظیریں ثابت کریں گی کہ یہ عمل دین اور لادین کی پروا کئے بغیر عین فطرت کے اصولوں کو اختیار کرتا ہے۔ فیڈل کاسترو کی فرسٹ جنریشن عسکریت سے مہمیز پا کر سات سال بعد اسی خطے کے ایک ملک کولمبیا میں اس مارکسی عسکریت نے دوبارہ سر اٹھایا جسے حکومت ختم کر چکی تھی۔ اس عسکریت نے کولمبیا میں دہشت گرد حملے کرکے ملک کے امن کو تباہ کرنا شروع کیا تو ان کے اہداف سرکاری ہی تھے۔ لیکن یہ بازاروں کے قریب بھی سرکاری اہداف کو نشانہ بنانے لگے جو کاسترو نے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس بدامنی کا فائدہ اٹھا کر پبلو ایسکوبار "میڈئین ڈرگ کارٹیل" بنانے میں کامیاب ہوا تو مارکسی عسکریت پسندوں نے مختلف مواقع پر انہیں بھی نشانہ بنایا۔ نتیجتا پبلو ایسکوبار نے اپنی پرائیویٹ آرمی کھڑی کردی جو مارکسی عسکریت پسندوں اور حکومت دونوں کو نشانہ بنانے لگی۔ کولمبیا نے امریکہ کی مدد سے ایسکوبار کے خلاف کار روائی شروع کی تو ایسکوبار نے پانچ پانچ سو کلوگرام کے بس اور ٹرک بم حملے شروع کردیئے اور ایک ایک دن میں وہ سینکڑوں لوگوں کی جانیں لینے لگا۔ سپریم کورٹ میں کیس شروع ہوا تو پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنا کر 90 یرغمالی قتل کردیئے جن میں سپریم کورٹ کے 20 میں سے گیارہ جج بھی شامل تھے۔ ایسکوبار کی اس ہلاکت خیزی میں 70 ہزار افراد لقمہ اجل بنے جو اس خطے میں تھرڈ جنریشن عسکریت تھی۔ اگر آپ اسی نظر افغانستان اور پاکستان کو دیکھیں تو یہاں فرسٹ جنریشن یعنی افغان مجاہدین بہت ذمہ داری کے ساتھ جہاد کرتے رہے اور عام افراد کو ان سے نقصان نہ پہنچنے کے برابر تھا۔ سیکنڈ جنریشن میں کشمیری عسکریت پسند آئے جو اتنے ذمہ دارانہ رویے کے مالک نہ تھے اور ان سے شکایات سامنے آتی تھیں جن کے ذکر کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ تنظیمیں اب کشمیر میں وجود نہیں رکھتیں۔ تھرڈ جنریشن میں ٹی ٹی پی آئی جو قصائیوں کا غول ثابت ہوئی اور اس نے پاکستان میں وہی کیا جو پبلو ایسکوبار کولمبیا میں کر چکا تھا۔ نہ انہوں نے سرکاری اہداف چھوڑے، نہ مسجدیں چھوڑیں، نہ بازار چھوڑے، نہ سکول چھوڑے اور نہ ہی پبلک پارک چھوڑے۔ ان کی جانب سے ہر اس مقام کو نشانہ بنایا گیا جہاں انسان بڑی تعداد میں جمع نظر آئے۔ ہزارہا انسان اس تھرڈ جنریشن عسکریت کے بے رحم حملوں کا نشانہ بنے۔ اسی پہلو سے مشرق وسطی کو دیکھیں تو افغان جہاد میں آنے والے عرب فلسطینی تنظیموں سے انسپائر تھے اور وہ افغانستان میں بھی مسلسل انہی کا تذکرہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ ہم فلسطین جائیں گے۔ اگر فلسطینی حریت پسند نہ ہوتے تو افغان جہاد ہونے کے باوجود بھی نہ کوئی ڈاکٹر عبداللہ عزام کو جانتا اور نہ ہی اسامہ بن لادن کو کیونکہ یہ افغانستان آتے ہی نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی تنظیمیں فرسٹ جنریشن تھیں اور ان سے پبلک محفوظ چلی آ رہی تھی، وہ پوری احتیاط کے ساتھ اسرائیل کے سرکاری اہداف کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ القاعدہ سیکنڈ جنریشن کی صورت میں سامنے آئی جس نے سعودی عرب اور افریقہ میں امریکی اہداف کو نشانہ بناتے وقت عام شہریوں کی ہلاکت کی زیادہ پروا نہیں کی لیکن یہ حدود و قیود میں بہرحال رہی۔ اب مشرق وسطیٰ میں تھرڈ جنریشن عسکریت پسندی داعش کی صورت سامنے آ چکی ہے اور یہ پبلو ایسکوبار اور ٹی ٹی پی کی طرح قصائیوں کا ہی ٹولہ ہے جسے عام شہری کی کوئی پروا نہیں اور داعش عام شہریوں کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بناتی ہے۔ اس تباہ کن مسئلے کا حل یہی ہے کہ حافظ سعید اور مسعود اظہر سمیت تمام پرانے جہادیوں کو خاموش کرا کر ملک سے عسکریت کا ماحول ختم کیا جائے کیونکہ یہ ماحول ہی ہوتا ہے جس سے نیکسٹ جنریشن عسکریت وجود میں آتی ہے۔ ٹی ٹی پی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور آئندہ پاکستان کی مسلح افواج کے علاوہ کسی کو بھی عسکری تربیت نہ دی جائے۔ افغانستان میں امن معاہدے کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ افغانستان نے پاکستان سے اس کے وجود میں آتے ہی ایک بے سبب دشمنی شروع کر رکھی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بھارت مغربی سرحد سے ہمارے لئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ حالیہ امریکہ طالبان مذاکرات میں یہ نکتہ پہلے ہی زیر بحث ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ اس نکتے کو خصوصی اہمیت دے کر بین الاقوامی معاہدے کی مدد سے 70 سالہ خونریزی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ (ختم شد)