25دسمبر 2015ء کے دن کابل ائیرپورٹ پر لینڈکرنے والے بھارتی ترنگے کے رنگوں میں رنگی وی وی آئی پی بوئنگ طیارے کی دم بتا رہی تھی کہ اس میں کوئی اہم شخصیت ہی سوار ہوسکتی ہے مشاق ہوا باز نے طیارے کو آہستہ ہستہ نیچے لانا شروع کیا پھرکچھ ہی دیر میں بوئنگ 747کابل ائیرپورٹ کے رن وے پر لینڈ کرکے رک چکا تھا ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مسکراتے ہوئے برآمد ہوچکے تھے ، کرسمس کے دن مودی کا یہ ایک روزہ غیر اعلانیہ دورہ تھا، انہیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کی اس نئی بلڈنگ پر پہنچادیا گیا جو کابل کیلئے بھارت کا تحفہ تھی۔ نریندر مودی نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ ہاؤس کا فیتہ کاٹ کیا اور کہا ’’آپکا دکھ ہمارا دکھ ہے آپکے خواب پورے کرنا ہماری ذمہ داری ہے آپ کی مضبوطی ہی ہمارے لئے بھروسہ ہے آ پ کی ہمت سے ہمیں تحریک ملتی ہے اور آپ کی دوستی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔‘‘ بھارتی میڈیا کے 400 سے زائد نیوز چینلز نے اس خبر کونشر کیا تجزیہ کارکابل دہلی دوستی کے رطب اللسان بن گئے اور طنزیہ انداز میں کہنے لگے بھارت کی کامیاب ڈپلومیسی نے پاکستان میں افغانستان کا کردار محدود سے محدود کر دیا اس وقت نریندر مودی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ پانچ برس بعد ایسا ہی ایک اہم طیارہ کابل ائیرپورٹ کا پر لینڈکرے گا جس سے اترنے والا چھ فٹ ایک انچ کا بھاری بھرکم جنرل بھارت کی 139ارب روپے کی سرمایہ کاری پر پانی پھیر دے گا۔ پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے غیر اعلانیہ دورے نے ’’نئی دہلی‘‘ کو بدمزہ کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی انخلاء کے فیصلے کے بعد بھارتی حکومت اوراسکے حساس ادارے افغانستان میں بھارتی مفادات کو بچانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں ،بھارت افغانستان میں دو بلین امریکی ڈالر یعنی 139ارب روپے کی سرمایہ کاری کرچکا ہے ۔افغان حکومت پر احسانات کا بوجھ لادنے کے بعد بھارت یہاں اپنے قونصل خانوں کو پاکستان کے خلاف کھل کر استعمال کرتا چلا آرہا ہے ،بدقسمتی سے افغان انٹیلی جنس اور بھارت کے حساس ادارے ’’را‘‘ مل کر پاکستان کے خلاف پروگرام چلاتے رہے ہیں ۔سرحد پارسے پاکستا ن کوداخلی معاملات میں الجھائے رکھنے کے لئے افغانستان کے قونصل خانوں میں منصوبہ بندی ہوتی رہی ہے ،بلوچستان میں دہلی اسپانسرڈعلیحدگی کی تحریک کیلئے یہ قونصل خانے سہولت گھر بنے رہے ہیں ’’آزادی ‘‘ کے جال میں پھنسے سادہ لوح بلوچ نوجوانوں کو پاکستان میںہتھیار اٹھانے کے لئے افغانستان ہی میں تربیت دی جاتی رہی ہے۔ دسمبر 2018ء میں قندھار میں ایک خودکش دھماکے میں مارے جانے والے سات افراد میں اسلم بلوچ عر ف اچھو کی کٹی پھٹی لاش پاکستان کے اس دعوے کی تصدیق کررہی تھی،یہ سب کے سب بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تھے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے میں اسلم بلوچ سمیت چھ کمانڈروں کے مارے جانے کی تصدیق کی ،یہ اسلم بلوچ کراچی میں چینی قونصل خانے حملے کا منصوبہ ساز بھی بتایا جاتا تھا جسکے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے مقرر تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انخلاء کے فیصلے اور طالبان سے معاہدے کے بعد بھارت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن کی بیل کسی بھی طرح منڈھے نہ چڑھے وہ جانتا ہے کہ افغانستان میں امن کی اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی یہاں امن کا عمل آگے بڑھتا ہے تو زمام اقتدار سیاہ پگڑیوں والوں کے ہاتھوں میںجانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور طالبان کی حکومت کا مطلب پاک افغان سرحدوں پر سکون اور بلوچستان میں شورش بپا کرنیوالوں کیلئے ’’بیروزگاری‘‘ ہے تو دوسری طرف بھارتی سازشوں کا اختتام، بھارت طالبان کیلئے ویسے ہی خیالات رکھتا ہے جیسے طالبان بھارت کیلئے لیکن یہ بھی درست ہے کہ امریکہ افغانستان سے بھارت کا کردار ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے اسی لئے اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح طالبان اور بھارت کے درمیان فاصلے کم ہوں ،امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد حال ہی میںایک بھارتی اخبارکو دیئے گئے انٹرویو میں یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ طالبان سے براہ رارست بات چیت کرے، زلمے خیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان کی اقتصادی ترقی اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود بھارت افغانستان کے حوالے سے بین الاقوامی سفارتکاری میں اہم مقام حاصل نہیں کرسکا امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت افغانستان میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے ۔ دہلی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل فیض حمیدکے ساتھ افغان صدر اورقومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے ساتھ تصاویر یقینا خوشگوار انداز میں نہ دیکھی گئی ہوں گی لیکن اس وقت امریکہ کی مجبوری ہے کہ وہ عزت اور سلامتی کے ساتھ اپنے فوجیوں کو وہاں سے نکالنا چاہتا ہے اور یہ کام پاکستان کو شامل کئے بغیر ممکن نہیں، افغان طالبان اب بھی پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں اور اسی کی سنتے ہیں۔ افغان امن کے عمل سے پاکستان کو نکال دیا جائے تو فریقین کے مابیں فاصلے حائل ہوجاتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد سے ملاقات کے بعد پاکستان سے لی جانے والی اس ’’غیراعلانیہ ‘‘ اڑان نے یہی واضح کیا ہے اگرچہ جنرل باجوہ کے دورے کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں لیکن زلمے خیل زاد سے ملاقات کو ان ملاقاتوں سے جوڑ نے کے بعد کسی آفیشل پریس ریلیز کی ضرورت نہیں رہتی ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ افغان امن عمل آگے بڑھایا جارہاہے۔ طالبان اور کابل حکومت کا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھایا جارہا ہے۔ شنید ہے کہ افغان حکومت جلد ہی پانچ ہزار طالبان قیدیوں کے لئے جیلوں کے دروازے کھول دے گی جسکے بعد زیادہ اچھے ماحول میں امن کی بات ہوگی اور افغان امن کا عمل آگے بڑھے گا۔ویسے اس سرزمین پر اب امن قائم ہوجانا ہی چاہئے لگ بھگ نصف صدی سے اس خطے میں بارود کی بو نے گلوں کی خوشبو دبا رکھی ہے پھول یہاں بھی کھلتے ہیں رباب کی تاریں یہاں بھی طلسم بکھیرتی ہیں خوشبو او ر موسیقی پر افغانوں کابھی اتنا ہی حق ہے جتنا واشنگٹن ،دہلی یا دنیاکے کسی بھی انسان کا،یہ حق اب انہیں ملنا چاہئے۔