روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات میں عسکری قیادت نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ فوج کا ملک میں کسی بھی سیاسی عمل میں براہ راست یا بلواسطہ کوئی تعلق نہیں۔ پاک فوج پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا محافظ ایک منظم اورڈسپلنڈ ادارہ ہے۔ آئین میں فوج کا کردار متعین ہے۔ آئین کے مطابق پاک فوج سول حکومت کی درخواست پر انتظامیہ کی معاونت کی پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی آفات اور ہنگامی صورت حال میں پاک فوج عوام کو ریسکیو کرنے میں ہمیشہ صف اول میں شامل رہی ہے اور اس کی بہترین مثال کراچی اور قبائلی اضلاع میں پاک فوج کی بے مثال قربانیاں ہیں۔ اسی طرح فوج سول حکومت کی درخواست پر انتخابات میں بھی انتظامیہ کی بھرپور معاونت کرتی رہی ہے۔ اس کو جواز بنا کر بعض عناصر فوج کو بے جا طور پر سیاست میں گھسیٹنے کے عادی ہو چکے ہیںیہ امر لائق تشویش ہے کہ حکومت مخالف سیاستدان موجود حکومت کو سلیکٹڈ کہہ کر فوج کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ عسکری قیادت کی پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات بھی اسی تناظر میں تھی جس میں عسکری قیادت نے اپنا مؤقف واشگاف انداز میں بیان بھی کر دیا مگر افسوس صد افسوس ملاقات کے چند روز بعد ہی اے پی سی اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف موقف کے نام پر فوج کے خلاف محاذ کھول دیا۔ بہتر ہو گا سیاستدان اپنی ناکامیوں کی وجوہات اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لانے پر توجہ دیں اور قومی سلامتی کے اداروں سے محاذ آرائی سے باز رہیں۔اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔