قومیں مشکل سے مشکل حالات سے ابھر کر ترقی و عروج کی منزل پا سکتی ہیں‘ شرط صرف یہ ہے کہ ان کو اپنے تنزل کا ادراک اور اصلاح احوال کی فکر ہو۔ عمران خان 126دن تک ڈی چوک میں پاکستان کو درپیش مسائل اور ان کے اسباب ہی نہیں حل حل بھی بتاتے رہے پاکستانی قوم کو بھی مسائل کا احساس اور لیڈروں کی تن آسانیوں اور تساہل پسندی کا بخوبی علم تھا اسی لئے 2018ء میں اصلاح احوال کے ایجنڈے پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے کر عمران خان کے ہاتھ میں اپنے مقدر اور پاکستان کے مستقبل کی ڈور تھما دی۔ آج حکومت اپنے اقتدار کے 23ماہ مکمل کرنے کو ہے ۔قوم کی عمران خان سے امیدیں مایوسی میں بدل رہی ہیں۔ اس کی وجہ اپوزیشن کی سازشیں یا میڈیا کا بے بنیاد پراپیگنڈا نہیں۔ تحریک انصاف کی بوکھلاہٹ اور ملکی مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے ملکی قرضوں میں کمی کے بجائے اپنے 19ماہ میں 13ہزار ارب روپے کا اضافہ کر دیا۔ روپے کی قدر 40فیصد کم ہو چکی۔ صنعتیں بند بے روزگاری کا عفریت ماضی سے زیادہ بھیانک۔ حکومت ہے کہ ذمہ داری لینے کے بجائے اپنی ناکامیوں کو ماضی کی حکومتوں کے سر تھوپنے پر بضدہے۔ حکومتی وزراء اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر اپوزیشن کو رگیدنے اگر اپوزیشن میسر نہ ہو تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف کو گونگی لولی لنگڑی اپوزیشن ملی شاید اسی لئے اپوزیشن کا کام بھی تحریک انصاف نے اپنے ذمہ لے لیا ہے پرفارمنس کا عالم یہ ہے کہ جمیل الدین عالی کے بقول: ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو تحریک انصاف کے ڈائنا سور آگ اگل رہے ہیں مگر حکومتی وزیر مشیروں پر۔ کس نے کس کو وزارت سے نکلوایا‘کس کے گروپ میں کتنے ارکان اسمبلی ہیں۔ پارٹی کے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھوئے جا رہے ہیں ۔ان حالات میں اتحادیوں کا ساتھ دینا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ بی این پی حکومتی اتحاد سے نکل گئی جو اب بھی اتحادی ہیں وہ مطالبات کی فہرست طویل سے طویل کرتے جا رہے ہیں۔ عوام کی ناامیدی بڑھی جا رہی ہے۔2018ء سے پہلے جو الیکٹیبلز پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خزاں زدہ درختوں سے اڑ کر تحریک انصاف کے شجر سایہ دار پر آن بیٹھے تھے اب اڑنے کے لئے پر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق ’’چن‘‘ 31ارکان کے ساتھ اگلا الیکشن تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے نہ لڑنے کا اعلان بھی کر چکے ۔تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن اور رکن اسمبلی نالاں و شاکی ٹی وی چینلز پر خلیل تنویر کا شعر سنا رہا ہے: اب کے سفر میں درد کے عجیب پہلو ہیں جو لوگ ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تحریک انصاف کے خاص و عام کی توپ کے نشانے پر ہیں ان کا غصہ اس حد تک جائز ہے کہ جو باتیں پارٹی کے فورم پر کرنی چاہئیں تھیں وہ وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہہ دیں مگر سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جب وزیر اعظم سے وزیروں کا بھی ملنا مشکل ہو تو پھر کون سا راستہ بچتا ہے گو وزیر موصوف کابینہ کی میٹنگز میں ویڈیو لنک پر سہی وزیر اعظم سے بات کرتے ہیں یہ درست کہ وزیر ویڈیو لنک پر اور مشیر وزیر اعظم کے پہلو میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ فواد چودھری نے جو کہا وہ کیا غلط ہے؟کیا انہوں نے یہ غلط کہا کہ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ اس لئے نہیں دیا کہ سسٹم کے نٹ بولٹ درست کریں عمران خان کو نظام بدلنے اور اصلاحات کے لئے وزیر اعظم بنایا تھا۔کیا یہ جھوٹ ہے کہ وزیر اعظم غیر منتخب مشیروں کے حصار میں قید ہیں۔یہ بھی سچ نہیں کہ بدعنوانی کے الزامات میں تحریک انصاف کے وزیروں کے بجائے وزیر اعظم کے غیر منتخب مشیر آگے ہیں بھلے ہی وہ جہانگیر ترین ہوں یا ندیم بابر یا پھر رزاق دائود ہوں۔ کیا یہ بھی سازش ہے کہ حکومت کو ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا ہے ؟کیا حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ وفا کر دیا یا اس پر کوئی پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔؟ سب سے بڑا سوال کہ کیا تحریک انصاف کی ناکامیوں کو بیورو کریسی کے عدم تعاون کے جواز میں چھپایا جا سکتا ہے؟ وزیر اعظم کو یہ رعایت مل سکتی ہے کہ وہ خود نیک نیت اور بدعنوان نہیں ان کی ٹیم نااہل ہے؟ ان سب سوالات کا جواب نفی میں یوں ہے کہ لیڈر کا پہلا امتحان تو درست اور اہل افراد کی ٹیم منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت اپنی ناکامیوں پر نظر ثانی کرے اور اسباب جاننے کی کوشش کرے تو وامق جونپوری کے اس سچ کو پا سکتی ہے: کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوںبرباد کیا اپنے ہی لہو کی بو آئی ہے ان اجڑے بازاروں میں سچ یہی ہے کہ وزیر اعظم نے ہی عوام کو خوابوں کے محل میں بسایا تھا اور آج معیشت معاشرت اور نظام کے اجڑے بازاروں میں ان کے نامناسب انتخاب کے لہو کی بو آ رہی ہے۔ ابھی وقت ہے حکومت کے پاس تین سال کا عرصہ اصلاح احوال کے لئے کافی ہے۔ حکومت ایمرجنسی ریلیف کی قلیل المدتی پالیسی اور نظام میں اصلاحات کی طویل المدت پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر حالات اور عوام کی تائید کو اپنے حق میں بدل سکتی ہے مگر شرط پھر وہی کہ اسباب کے علم کے ساتھ اصلاح احوال کی فکر بھی ہو۔ ناکامیوں کے ساتھ حکومت کے اچھے اقدامات کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہو گی۔23ماہ میں احساس پروگرام کے بعد دوسرا طویل المدتی کارنامہ مارچ سے ملک بھر میں یکساں نصاب کا رائج ہونا ہے مگر اس کا انحصار بھی عملدرآمد پر ہو گا ۔بہرحال یہ اچھی ابتدا ہو سکتی ہے اگر حکومت رونے دھونے کے بجائے اقدامات پر توجہ دے۔ وزیر منتخب ہوں یا پھر غیر منتخب مشیر تحریک انصاف کو عوام کے دلوں میں زندہ رکھ سکتے ہیں اگر نتائج دیں!اسباب کا رونا رونے سے قوم کی تنزلی کا سفر نہیں رک سکتا راحیل فاروق نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے: عشق اگر اشک بہانے سے امر ہو جائے روئوں یوں روئوں کہ زم زم کو خبر ہو جائے