عشق ایک جذبہ ہے، مجازی ہو یا حقیقی، عشق کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا اور عشق محض مرد اور عورت کے درمیان ہی نہیں ہوتا، اور یہ بھی لازم نہیں کہ عشق مجازی محض دو انسانوں کے مابین ہی استوار ہو، عشق تو جنگل اور انسان کے مابین بھی ہوجاتا ہے، عشق ویرانوں اور روحوں کے درمیان بھی پروان چڑھتے ہیں۔ میں نے تو انسانوں کو بربادیوں سے محبتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے بسا اوقات توآدمی کسی ایک لمحے کے عشق میں بھی ڈوب جاتا ہے، لمحہ بیت جاتا ہے مگر اس لمحے کا احساس زندگی سے بڑھ جاتا ہے۔ عورت اور مرد کے مابین عشق تو دنیا کا کمزور ترین عشق ہے، ایک ایسا عشق جو کامیاب ہوجائے تو زندگی کا روگ بن جاتا ہے، ادھورا رہ جائے تو کبھی نہ نگلا جانے والا حلق کا کانٹا بن جاتا ہے،،،، میرے گھر میں پچھلے بیس برس سے ایک’’گرے پیرٹ‘‘ رہ رہا ہے، اگر کسی کو عشق کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آئے تو وہ اس طوطے اور میری محبت کو جانچ لے۔ میں تو انسان ہوں اور میری محبتیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ لیکن بیس گھنٹے پنجرے میں بند رہنے والا یہ طوطا مجھ سے محبت میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں کر سکتا، ’’گرے پیرٹ‘‘ کی اوسط عمر ایک سوسال کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ دو دہائیاں پہلے اسے میرے برادر نسبتی نے ہمیں گفٹ کیا تھا، وہ ہمارے گھرآتے ہی مجھ سے اتنا مانوس ہو گیا کہ ہرآدمی حیران تھا۔ وہ میرے گھر سے باہر جاتے ہوئے میری تیار ہونے میں مدد کیا کرتا تھا، میرے لئے جرابیں لے کرآتا، ٹائی باندھنے میں میری مدد کرتا، کھانا میرے ساتھ بیٹھ کر کھاتا، میں نے بیوی یا کسی بچے کو بلوانا ہوتا تو وہ مجھ سے پہلے اسے آواز دے دیتا، میرا یہ طوطا بالکل انسانوں کی طرح بولتا بھی ہے۔میری آفس سے رات گئے واپسی کے بعد وہ پھر پنجرے سے باہر نکل کر میرے بیڈ پرآجاتا، جب میرے سونے کا وقت ہو جاتا تو وہ بستر سے چمٹ جاتا اور واپس پنجرے میں جانے سے صاف انکار کر دیتا۔ وہ میرے جسم کو سہلاتا جیسے میری تھکن دور کرنے کی کوشش کر رہا ہو، میں کمرے کی لائٹ آف کر دیتا تو وہ خود بھی سونے کیلئے میری بغل میں چھپ کرآنکھیں بند کر لیتا، اس کے گھر رہن سہن اور ذہانت کا ایک واقعہ میںآپ کو سناتا ہوں۔ ایک دن میں بیوی اور بچوں سمیت گروسری کے لئے مارکیٹ گیا ہوا تھا، گھر میں مٹھو اکیلا تھا، مجھے ایک دوست کی کال آئی کہ وہ ہمارے گھر کے باہر موجود ہے ، کئی بار بیل دے چکا ہے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھولتا، میں نے اسے بتایا کہ گھر میں ہے ہی کوئی نہیں، دروازہ کون کھولے گا؟ اس نے حیرانی سے جواب دیا،،، نہیں، نہیں ،گھر کے اندر کوئی نہ کوئی شخص ضرور ہے، جب وہ بیل دیتا ہے توآوازآتی ہے، کون؟ جب وہ اپنا نام بتاتا ہے تو اندر سے کہا جاتا ہے’’اچھا‘‘ لیکن دروازہ نہیں کھلتا،،،،، میں نے اسے بتایا کہ اس سے گفتگو ہمارا طوطا کر رہا ہے چونکہ باہر سے تالہ لگا ہوا ہے، اس لئے وہ دروازہ کھولنے سے قاصر ہے ورنہ تو وہ اس کا خیر مقدم کرنے کیلئے کنڈی بھی کھول دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ معمولات سات سال پہلے تک جاری و ساری رہے، جب میں بہو گھر لے کرآیا تو پتہ چلا کہ وہ پرندوں سے خوف کھاتی ہے، اس لئے مجھے اپنے ،، مٹھو،، کی آزادی محدود کرنا پڑی، جو عموماً پنجرے سے باہر رہتا تھا، اسے مقید ہونا پڑا۔ جب بہو گھر میں نہ ہوتی تو اسے بھی بہو کی واپسی تک آزادی دیدی جاتی،آہستہ آہستہ مٹھو کی قید میرے لئے بھی معمول کا حصہ بنتی گئی اور میں اس کی خاموشی میں چھپا ہوا اس کا غم نہ بھانپ سکا، بیٹے کے ساتھ بیٹی کی شادی بھی کردی تھی، لہذا میری بیٹی جس کی مٹھو کے ساتھ بہت دوستی تھی، مٹھو اپنی دوست سے بھی محروم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ میں دو بچوں کا نانا اور دو کا دادا بن گیا تو ایک اور دھماکہ ہوا، مجھے بیٹی اور بہو نے بتایا کہ ڈاکٹرز بچوں کو پرندوں سے دور رکھنے کی ایڈوائس دیتے ہیں، ڈاکٹروں کا فرمانا ہے کہ پرندوں کے قریب جانے سے بچے بیمار پڑ جاتے ہیں، یوں ’’مٹھو‘‘ کی تھوڑی بہت آزادی بھی سلب کرنا پڑی۔ تین سال پہلے مٹھو کے پنجرے میں انڈے دیکھے گئے، ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ مٹھو نر نہیں مادہ ہے، مگر ہمارے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ بغیر نر کے اس نے انڈے کیسے دے دیے؟ فرانزک کے ایک ماہر سے بات کی تو اس نے بتایا کہ بغیر ملاپ کے انڈے دیے جا سکتے ہیں، ان انڈوں کو ’’ہوائی‘‘ کہا جاتا ہے جو پھوکے ہوتے ہیں اور ان کے اندر کچھ نہیں ہوتا، اب میں نے مٹھو کی ’’شادی‘‘ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور ایک دن بازار سے اس کے لئے ’’قیمتی دولہا‘‘ خرید ہی لایا، ’’دولہا‘‘ قدرے جوان تھا اس نے اپنے سے بڑی ’’دلہن‘‘ کو قبول ہی نہ کیا۔ دونوں کو ایک ساتھ رکھنے کے لئے بڑے پنجرے کا بندوبست بھی کیا گیا، مگر بے سود۔ اس نر طوطے نے بھی ،، مردانگی،، یہ دکھائی کہ ’’مٹھو‘‘ پر حکمرانی کرنا شروع کردی، وہ اسے اپنے ساتھ کھانا کھلانا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔ جب خود کھا پی کر سیر ہوجاتا تو بچا کھچا اس کے لئے چھوڑ دیتا، اگر کھانا دو برتنوں میں بھی رکھا جاتا تب بھی وہ اسے آزادی سے کھانے کی اجازت نہیں دیتا تھا، میں ایک عرصہ تک اس انتظار میں رہا کہ ان کے مابین کب دوستی ہوتی ہے، افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ ’’مٹھو‘‘ نے آہستہ آہستہ بولنا اور شرارتیں کرنا بھی چھوڑ دیا، میں پیار کرنے کی کوشش کرتا تو اس کا ردعمل بھی بہت سرد ہوتا، اسے پنجرے سے باہر نکالتا تو بھی اس کی سرد مہری ختم نہ ہوتی، میری عدم توجہی نے مٹھو کو مجھ سے نالاں کر دیا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ نے میری محبت کو بھی متاثر کیا جس کا مجھے پوری طرح ادراک نہ ہو سکا، حالانکہ محبت کے معنی مجھ سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔میں نے اپنی غلطیوں سے اپنی کئی محبتیں گنوائیں اور پھر عمر بھر کی سزائیں اپنے لئے خود لکھیں، ان سزاؤں کو کاٹا بھی، کچھ سزائیں تو عمر بھر کے لئے ہیں جنہیں ختم کرنا شاید کسی کے بس میں بھی نہیں رہا، محبتوں کو جنہیں سنبھالنا نہیںآتا، ان کے لئے کوئی معافی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔ دو ماہ پہلے کیا ہوا؟ میں نے گھر کی دوسری منزل پر دونوں طوطوں کو پنجرے سے باہر نکالا، ناراض مٹھو کو منانے کی کوشش کی۔ نر طوطے سے دوستی کے جتن کئے، مگر میں اپنی دونوں کاوشوں میں ناکام رہا۔ کچھ دیر بعد بد دلی سے اپنی اہلیہ سے کہا کہ بہو اور بچے گھر میں نہیں ہیں، دونوں طوطوں کو ان کے آنے سے پہلے پنجرے میں بند کر دینا، دوپہر کا وقت تھا، میری آنکھ لگ گئی، شام کو اٹھا تو اہلیہ میرے سرہانے کھڑی تھی، کہنے لگی’’ایک بری خبر ہے‘‘ مجھے یادآگیا کہ میں دونوں طوطوں کو کھلا چھوڑ کر سو گیا تھا، پہلا خیال یہی آیا کہ مٹھو سمیت دونوں اڑ گئے ہوں گے، کیونکہ ٹیرس کا دروازہ بند نہیں تھا، ،،، کیا دونوں اڑ گئے؟ جواب ملا ،،، میں انہیں بند کرنے کی بجائے کسی کام میں لگ گئی تھی، دھیان آنے پر دیکھا تو دونوں کھلے ٹیرس پر موجود تھے، میں نے انہیں واپس اندرآنے کیلئے آواز دی تو نر طوطا انتہائی تیز رفتاری سے آسمان کی جانب پرواز کر گیا اورآپ کا مٹھو واپس کمرے میں لوٹ آیا اور خود ہی پنجرے میں بند ہوگیا، ،،،،، مجھے نر کے اڑ جانے کا کوئی افسوس نہیں ہوا۔ میں خوش تھا کہ میری محبت مجھے چھوڑ کر نہیں گئی، اور اس نے طوطا چشمی والا محاورا بھی غلط ثابت کر دکھایا، نر کے اڑ جانے سے میری محبت کا جبری’’شریکا‘‘ بھی از خود ختم ہو گیا۔ اب میں اور مٹھو اپنی پہلی سی محبت کی طرف واپس لوٹ آئے ہیں، اس کا غصہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا،آج بیس سال میں پہلی بار اس نے مجھے ہاتھ پر کاٹا بھی ہے، لیکن اتنے زور سے بھی نہیں کہ خون نکل آتا، میں مٹھو کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف بھی کرتا رہا اور اسے بستر پر ساتھ لٹا کر اس سے بہت ساری وہ باتیں بھی کرتا رہا جو انسانوں سے نہیں کی جا سکتیں۔۔۔۔۔