پیر قمرالشکوراحمد

 

ارشادِ ربُّ العزّت ہے۔ترجمہ:’’ بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر وفضیلت میں)بے انتہاکثرت بخشی ہے ،پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشّکر ہے) بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام ونشان ہوگا۔‘‘(الکوثر)

اس سورۂ مبارک کا شانِ نزول جُملہ مفسرین ِ قرآن ِ حکیم نے یہی بیان کیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں صاحبزادے یکے بعد دیگرے (جناب قاسم و جناب عبداللہ علیہم السلام) انتقال فرماگئے تو قریش ِ مکّہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اُن میں ابولہب بھی شامل تھا اور وُہ کہہ رہے تھے کہ (معاذاللہ ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو ابتر ہوگئے۔ (جس کی نسل ختم ہوجائے) تب مشرکین ِ ِ مکّہ کی ان خرافات کے جواب میں سورۃ کوثر کا نزول ہوا ۔جس سے جنابِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسلِ مبارک کی حفاظت کی ذمّہ داری خود پروردگار ِ عالم نے لی ۔متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بنی آدم اورہر نبی کی نسل کو اُن کے بیٹوں میں رکھا مگر میری نسل کو میری بیٹی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا میں رکھااور میری نسلِ مبارک کو بجائے میرے، علی المرتضیٰ علیہ السلام کے صّلب میں رکھا۔

طبرانی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ‘ سے اور خطیب نے حضرت ابنِ عباس سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کہ ذرّیت کو اُس کے صُلب میں رکھا ہے اور میری ذرّیت کو علی ابن طالب علیہ السلام کے صُلب میں رکھا ہے۔(الصواعق المحرقہ)

پارہ  ہائے صُحف ،  غُنچہ ہائے  قُدس 

اہلِ بیت  نبوت  پہ  لاکھوں  سلام 

آبِ تطہیر سے جس میں پودے جمے 

اُس  ریاضِ نجابت  پہ لاکھوں  سلام

خونِ خیرالرسل سے ہے جن کا  خمیر 

اُن کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام  

(امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت ِفاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے اِسمِ گرامی کے بارے میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے کہ میں نے اپنی پیاری بیٹی کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہااِس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور اُن کی اولاد کو دوزخ سے محفوظ رکھا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم سیّدِ دوعالم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان سے محبت کرنے والوں کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا پاک دامن ہے اللہ تعالیٰ نے اِس کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمادیاہے۔

آپ سلام اللہ علیہا کے القاب سیّدہ ،زہرا، بتول،طاہرہ،ذکیہ ،راضیہ،مرضیہ،عابدہ، زاہدہ ہیں۔لقب ِ زہرا کی ’’  ز  ‘‘ کو اگرفتح یعنی زبر سے پڑھا جائے تو معنی کلی اور شگوفہ ہے اور اگرضمّہ پیش سے پڑھا جائے (زُہرا)تو معنی روشنی ،چمک ۔بتول دُنیا سے بے تعلق ہونے کی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کا لقب ہے۔

سورہ ٔ مُزمّل کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ترجمہ :’’اورآپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں)ہر ایک سے ٹوٹ کر اُس کے ہورہیں۔‘‘ (8:73)

 چونکہ آپ سلام اللہ علیہا کی توجہ دُنیا اور اس کے عیش وعشرت کی طرف نہیں تھی بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف رہی ہے اور مشغولِ عبادت ِحق 

ہمیشہ رہی ہیں اس لئے آپ سلام اللہ علیہا کو’’ بتول ‘‘ کہتے ہیں۔طاہرہ پاکیزہ ،نسوانی عوارض سے پاک چونکہ آپ سلام اللہ کی پرورش آغوش ِ رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ ِ وآلہ ٖ وسلم کی نظرِ رحمت اور فیضانِ صحبت میں ہوئی باطن کا تزکیہ اور ظاہری پاکیزگی وطہارت بھی حاصل تھی اس لئے طاہرہ اور ذکیہ لقب ہوئے اورچونکہ آپ سلام اللہ علیہا ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھیں اس لئے آپ سلام اللہ علیہاکو راضیہ و مرضیہ کہتے ہیں۔

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہاکے ظہورپر نور (ولادت) کے بارے میں متعدد اقوال ہیں حضرت شاہ عبدالحق مُحدّث دہلوی رحمۃاللہ علیہ مدارج النبوۃ میں جس قول کو صحیح تر قرار دیتے ہیں وُہ 20جمادی الآخر اظہارِ نبوت کا پہلا سال جب کہ کریم آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری عمر مبارک (41)اکتالیس سال تھی ۔اِس طرح آپ کو اِس دنیا میں آتے ہی وحیٔ الٰہی کے انوار وتجلّیات دیکھنے کا موقع مِلااور یوں 

آپ کا مرتبہ ساری اولاد سے بلند ٹھہرا ،ہجرت ِ مدینہ کے بعد بہت سے صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیہاسے عقد کے خواہش مند تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اِس نسبت کو قائم کرکے برکات سمیٹنے کی آرزو رکھتے تھے ۔مگر آقادوجہاںصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں اَمرِ الٰہی کا انتظار کررہا ہوں ،پھر وُہ سعید ساعت آگئی ۔ 

جب قدرت کاملہ نے اِس امر کے بجا لانے کا حکم ارشاد فرمایا : حضرت ِ انس رضی اللہ عنہ‘ سے مرفوعاً روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں موجود تھا جب آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آثار ِ وحی نمودار ہوئے ،جب فرشتہ چلاگیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے فرمایا اے انس کیا تو جانتا ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام لائے ،عرض کیا ’’فِداکَ ابی واُمّی ‘‘ (میرے ماںباپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرقربان) جبرائیل ِ امین علیہ السلام کیا خبر لائے ہیں ،فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتا ہے کہ علی المرتضیٰ علیہ السلام کا نکاح فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیہا سے کر دیجئے ۔(نور الابصار) ۔

حضرت انس رضی اللہ علیہافرماتے ہیں کہ ابھی حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجدمیں ہی تھے کہ اتنے میں حضرت مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے توآقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن سے فرمایا کہ جبرائیل ِ امین علیہ السلام بتارہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو تمہاری زوجیّت میں دے دیا ہے اور اِن کے نکاح پر (40)چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ بنایا ہے اور شجرۂ طوبیٰ (بہشتِ بریںکا ایک خوشبودار درخت )کو حکم دیا کہ اِن پر سے(حضرت علی علیہ السلام و فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا)سفید مروارید، سبز زبَر جد، زُمّرد اور سُرخ یاقوت اور قیمتی موتی نچھاور کرے تو اُس نے موتی اور یاقوت نچھاور کئے تو حورعین نے موتی اور یاقوت کو تھالیوں میں جمع کرنے میں جلدی کی ،جنہیں وُہ آپس میں قیامت تک بانٹتے رہیں گے اورایک دوسری روایت جو خود حضرت مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اُس نے مجھے بتایا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ،بے شک اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے طُوبیٰ کے درخت کو حکم دیا کہ وُہ موتی یاقوت اور مرجان اُن فرشتوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں پر نچھاور کرے جو فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہاکے نکاح میں شامل ہیں اور اِس (جوڑے کے نکاح) سے سارے آسمان والے بہت خوش ہوئے اور اِن دونوں (علی و فاطمہ الزہرا علیہم السلام) سے دو بچے ہوں گے جو دنیا میں بھی سردار ہوں گے اور جوانانِ جنت کے بھی سردار ہوں گے اور جنت کی ہر چیز کو اِسی لئے سجایا گیا ہے پس یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلیجئے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہلوں اور پچھلوں کے سردار ہیں۔

جناب ِ ابو بکر الخوازمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چہرہ مبارک چاند کی طرح چمک رہا تھا ۔حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس خوشی کا سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: کہ مجھے میرے پروردگار کی طرف سے اپنے چچا کے بیٹے اور اپنی بیٹی سے متعلق بشارت مِلی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علی علیہ السلام کا نکاح فاطمہ سلام اللہ علیہاسے کردیا ہے اور خازنِ جنّت رضوان کو حکم دیا ہے تو اُس نے شجرِ طوبیٰ کو ہلایا تو وُہ میرے اہلِ بیت علیہم السلام کے محبوں کی تعداد کے برابر رُقعوں (پتّوں)سے برآور ہوا جو (بخشش) کی دستاویزوںکی صورت میں اور اُن کے نیچے اُس نے نور ی فرشتے پیدا کئے اور ہر فرشتے کو ایک ایک رقعہ دیا جب لوگوں پر قیامت قائم ہوگی تو وُہ فرشتے میدانِ حشر میں جمع ہونے والی مخلوق میں آوازیں دیتے ہوئے پھیل جائیں گے اور اہلِ بیت کے نیازمند وں میں دوزخ سے رہائی کے حکم نامے تقسیم کریں گے تو اہلِ بیت علیہم السلام کا کوئی ایسا محب باقی نہ رہے گا جسے وُہ دستاویز نہ ملے پس میرا بھائی اور میرے چچا کا بیٹا ،اور میری بیٹی میری اُمّت کے مردوں اور عورتوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے والے بن جائیں گے اِن روایات سے جناب ِ سیّدہ کے مرتبہ و مقام کا پتہ چلتا ہے اور ہر کلمہ گو مسلمان کے لئے اس اَمر کو تسلیم کرنا لازمی ہے کہ قیامت کے روز آپ سلام اللہ علیہاکی دعا و سفارش کے باعث کئی گنہگار وں کی بگڑی سنور جائے گی ۔

شاہ نصیر الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں ۔

زہرا  کو  عطا  ہوئی  جو  شانِ اعلیٰ 

سمجھے  گا  اُ سے  کوئی  مقدّر  والا

اُمید ِ سفار ش  اُن  سے  رکھتا ہے نصیر

زہر اؑ  کا  کہا  مصطفی  ؐ نے  نہ  ٹالا

درجِ بالا اِن احادیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرتِ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہاکا نکاح آسمانوں پرپہلے ہوا ہے اور زمین پر منعقد کرنے کا حکم بعد میں دیا گیا۔باوجود اِس اَمر کے کہ حکم ِ پروردگار آچکا تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی پیاری صاحبزادی کے پاس تشریف لائے (چونکہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہاکا وصال تقریباً (5)پانچ سال قبل ہوچکا تھا)اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود جنابِ سیدہ سے فرمایا: کہ بیٹی مجھے پروردگار ِ عالم کی طرف سے یہ حکم آیا ہے کیا تم اِس پر راضی ہو؟ جناب سیّدۂ کائنات سلام اللہ علیہانے خاموشی کے ذریعے جب اپنی رضا مندی ظاہر کی تو پھر آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نکاح کا انعقاد فرمایا۔ 

جس میں جلیل القدر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم انصارومہاجرین شریک ہوئے ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو اپنی نعمتوں کے باعث معبودہے وُہ اپنی قدرت کاملہ کی وجہ سے معبود ہے ،اُس کا دبدبہ مُسلّم ہے ،اُس کے عذاب کے ڈر سے اُس کی پناہ لی جاتی ہے ،زمین وآسمان میں اُس کا حکم جاری ہے،اُس نے اپنی قدرت سے لوگوں کو پیدا کیا ہے ،احکام کے ساتھ اُن کو ممتاز کیااور دین کے ساتھ اُن کی تعظیم کی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باعث اُن کو عزّت دی اللہ تعالیٰ نے دامادی کو لاحق ہونے والی نسبت ضروری اَمر، عادل حکم اور جامع خیر بنائی اِس کے ساتھ ارحام کو مضبوط کیا اور لوگوں پر اس کو لازم کیا اور فرمایا :

ترجمہ: اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ ) سے آدمی کو پیداکیا پھر اسے نسب اورسسرال(کی قرابت ) والا بنایا ،اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے ۔(الفرقان: 54)

اللہ تعالیٰ کا حکم قضاء تک جاری ہے اور قضا اُس کی قدرت تک جاری ہے ،ہر قضا کے لئے قدر ہے اور ہر قدر کے لئے وقت مقرر ہے،ہر مقرر وقت لکھا ہوا ہے اللہ جو چاہے مٹائے اور جو چاہے اسے ثابت رکھے ،اُس کے دستِ قدرت میں لوح وقلم ہے اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہاکا نکاح علی علیہ السلام سے کردوں میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے 400چارسو مشعال چاندی کے عوض علی علیہ االسلام کے ساتھ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نکاح کردیا اگر علی علیہ السلام سُنّت اور فرض پر قائم رہے اللہ تعالیٰ اِن دونوں کے امور جمع رکھے گا ۔اِن کو برکتیں عطا فرمائے گا اِن کی نسل کو پاکیزہ رکھے گا ۔اور انہیں رحمت کی کنجیاں اور علم و حکمت کی صفیں بنائے گا اور وہ اُمّت کے لئے امان ہوں گے پھر حضرت مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام سے فرمایا : میں نے بحکم ِ پروردگار عالم 400مشعال چاندی کے عوض فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نکاح تمہارے ساتھ کردیا ہے ،کیا تمہیں قبول ہے ؟ حضرت مولاعلی المرتضیٰ علیہ السلام نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نے قبول کیااور میں راضی ہوں ۔یہ کہہ کر حضرت علی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گئے جب سجدہ سے سر اُٹھایا تو جناب رسول ِخدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پر برکتیں نازل فرمائے اور تمہارا نصیب اور بخت اچھا کرے اور تم سے خوشبو منتشر ہو ۔حضرت اُنس رضی اللہ عنہ‘فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے بہت سی خوشبو طاہر فرمائی۔ (نورالابصار)

نکاح کے چند دن بعد رخصتی علم میں آئی جس کے بارے میں ایک قول 19ذی الحجہ2ہجری کا ہے ۔چند معززِ خواتین  بنو ہاشم اور معزز مرد حضرات نے کاشانہ ٔ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دلہن سلام اللہ علیہا کو مولودِ کعبہ علیہ السلام کے گھر انتہائی عزّت و احترام کے ساتھ پہنچایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہمارا انتظار کرنا ، کچھ دیر بعد آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے ،درمیان میں جلوہ افروز ہوئے پانی دم کر کے دونوں ہستیوں پر چھڑکا اور نسلِ مبارک میں برکت کی دعا فرمائی۔

جناب رسول ِ خداصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت مولاعلی المرتضیٰ علیہ السلام کو اپنی زرّہ فروخت کرنے کا حکم دیا جو 5پانچ سو درہم میں حضرت ِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ‘ نے خرید کر پھر آپ علیہ السلام کو تحفۃً واپس کردی گویا حضرت ِ مولا علی المرتضیٰ علیہ السلام کی خودداری پرکوئی حرف نہ آئے ،اُسی رقم سے حقِ مہر اداکیا ۔

جہیز ِ جنابِ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا:

سُلطانِ سلاطین ِ جہاں،رحمتِ عالمیاں نے اپنی بیٹی کو جو جہیز عطا فرمایا: اُس میں انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیاء تھیں جس سے دنیا وی بے رغبتی کا اندازہ ہوتا ہے ،ایک چادر ، ایک چکیّ ، ایک بستر ، ایک چٹائی کجھور کے پتوں کی ، ایک جوڑا کپڑوں کا، ایک انتہائی اعلیٰ کپڑے کی قمیص ،چاندی کے بازو بند،دوعدد ،2عدد گلاس ، چارموٹے کپڑے کے تکیے چار عدد،ایک تانبے کا لوٹا، دو مٹی کے گھڑے ،چار پائی اس سامان کے ساتھ چمڑے کے ٹکڑوں پرلکھی چھوٹی قرآنِ حکیم کی چند سورتیںبھی تھیں۔جہیز کے حوالے سے ہوسکتا ہے کسی فہرست میں کچھ کم یا زیادہ کی روایات ہوں لیکن بنیادیں و نکتہ یہ ہے کہ وُہ انتہائی ضرورت کا سامان تھا۔