اک نخشب خیال کو زہرہ جبیں کے ساتھ میں نے گماں کو جوڑ دیا اک یقیں کے ساتھ قائل نہ کر سکا کوئی دل کو دلیل سے میں دو گھڑی نہ بیٹھ سکا نکتہ چیں کے ساتھ میرے پیارے اور محترم قارئین! آج میں ایک نہایت پروقار تقریب کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں جو خیال کی طرح خوبصورت تھی رنگ و رونق سے بھرپور۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ معروف شاعر قمر ریاض اپنے آبائی شہر علی پور چٹھہ میں ایک مشاعرہ منعقد کر رہا ہے۔ اپنی سست روی کے باعث جانے میں ذرا تامل بھی تھا۔ مگر جیسے تیسے گھر سے اٹھا لیے گئے اور علی پور چٹھہ پہنچے تو دور ہی سے ڈھول کی تھاپ سے کان کھڑے ہوئے اور آتش بازی سے آنکھیں جلنے بجھنے لگیں۔ یاالٰہی یہ کہاں آ گئے کہ کوئی تقریب شادی ہے نہیں نہیں صاحب ،پتہ چلا کہ یہ شاعروں کا استقبال ہے۔ محترم عطاء الحق قاسمی‘ سید سلمان گیلانی‘ عباس تابش‘ قمر ریاض اور دوسرے شعرا روشنی میں نہا رہے تھے۔ بہت اچھا لگا۔ شعرائے کرام کی ایسی تکریم، آب حیات میں درج بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں ہونے والے مشاعرے آنکھوں میں گھوم گئے کہ مشاعرہ کی باقاعدہ ایک روایت ہے جو دہلی اور لکھنو سے ہوتی لاہور آئی اور اب علی پور چٹھہ میں قمر ریاض‘ ڈاکٹر عبداللہ‘ ثاقب تبسم نگینہ اور ان کے دوستوں نے ایسی محفل آرائی کا اہتمام کر دیا کہ مشاعرے کی تاریخ میں جگمگائے گی۔ اس تمہید کے بعد میں آپ کو سیدھا سٹیج پر اور پنڈال میں لے چلتا ہوں کہ درجن بھر شاعر اور پانچ چھ صد لوگ جن میں خواتین بھی تھیں اور کچھ بچے بھی۔ ایسے سامعین بھی کم ہی دیکھیں ہوں گے کہ رات گزرتی گئی اور وہ ہمہ تن گوش رہے۔ وقاص عزیز کی میزبانی تھی کہ وہ ایسے بھی اینکر ہے اور پاٹ دار آواز کا مالک۔ صدارت تو ظاہر ہے عطاء الحق قاسمی ہی کی بنتی تھی کہ وہ ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ ملتے ہی میں نے کہا کہ جناب کے چہرے پر نہایت خوش گوار چمک نظر آ رہی ہے فرمانے لگے‘ بس مجھے اسی تبصرے کی ضرورت تھی اب ستے ای خیزاں نیں۔ آغاز کلام اللہ کے ساتھ ہوا اور پھر ملک کے نامور نعت خواں لیاقت الحسن گیلانی نے حنیف نازش کی نعت لحن دائودی میں پڑھ کر محفل لوٹ لی: کیا اشکوں نے آساں کام میرا گزارش میں سہولت ہو گئی ہے مرے سرکار کی آمد سے نازش یہ دنیا خوبصورت ہو گئی ہے عزیز وقاص نے تمام مہمان شعرا سے تعارف کروایا اور سب سے پہلے میزبان شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ کیونکہ سب سے پہلے میں بنیادی میزبان قمر ریاض کے دو شعر آپ کی نذر کردوں کہ وہ ایسا وضعدار اور پرخلوص نوجوان ہے کہ کوئی محبت کرنا اس سے سیکھے کہ جو دوسرے دوستوں کی بے ہنری پر بھی مسکرا کر چشم پوشی کر جاتا ہے: ندی کے دلفریب بہائو میں آ گئے ہم سادہ لوگ تھے ترے دائو میں آ گئے وہ چاہتے نہیں تھے پرندوں کو بھیجنا آندھی چلی تو پیڑ دبائو میں آ گئے میزبان شعر ا ء میں ڈاکٹر سلیمان‘ عبداللہ اور ثاقب تبسم نگینہ نے خوب داد پائی۔ ایک نوجوان شاعر یونس تحسین نے حاضرین کی توجہ حاصل کی۔ خوشی ہوئی کہ مضافات میں کیسی کیسی اچھی شاعری ہورہی ہے۔ ملتان سے قمر رضا شہزاد تشریف لائے تھے‘ سرگودھا سے پروفیسر یوسف خالد‘ فیصل آباد سے علی زریون‘ منڈی بہائوالدین سے ادریس قریشی‘ لاہور سے تہذیب حافی‘ نبیل نجم‘ ابرار ندیم‘ اکرام عارفی‘ خرم آفاق اور سید سلمان گیلانی۔ چلیے ان کا تازہ قطعہ: رن مریدی کا یہی طعنہ دیاکرتے ہیں لوگ ہم فقیروں کا اثاثہ کوئی رن سے بڑھ کے ہے ’’40 کے جی‘‘ سے وہ رن ’’140 کے جی‘‘ ہو گئی نیب کہتی ہے اثاثہ آمدن سے بڑھ کے ہے عطاء الحق قاسمی بھیگتی ہوئی رات میں زیادہ بیٹھ نہیں سکتے تھے تو انہیں ان کی خواہش پر پہلے بلا لیا گیا اور انہوں نے خوب داد پائی کہ نام ہی کافی ہے: اک صدا دے کے، میں لوٹ آیا عطا اس نے اندر سے جب یہ کہا کون ہے میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔ اگر کالم جاری رکھوں تو شعرا کے اچھے اشعار سے آپ محروم ہو جائیں گے۔ ہاں طعام کا ذکر نہ کرنا کفران نعمت ہوگا۔ مچھلی‘ مٹن‘ باربی کیو اور پتہ نہیں کیا کچھ تھا۔ بلکہ رات 3 بجے جب مشاعرے سے لوٹے تو ایک مرتبہ پھر تازہ پراٹھے اور باقی تمام لوازمات۔ چلیے کچھ اشعار بھی یاد آ گئے: ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں (عباس تابش) گونجتے رہتے ہیں الفاظ میرے کانوں میں تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ (سعداللہ شاہ) محبت تیرا میرا مسئلہ ہے زمانے کو شریک کار مت کر (قمر رضا شہزاد) منظر سبھی کے ہوئے اک آئینے میں ہیں اور آئینے کے روبرو رکھا ہوا ہوں میں (یوسف خالد) منا بھی لوں گا گلے بھی لگائوں گا میں علی ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے (علی زریون) ہم دل لگانے آئے ہیں دل بیچنے نہیں سرکار کاروبار کسی اور دن سہی اور آخر میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ستار نواز وجیہہ نظامی کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قصیدہ بردہ شریف کی دھن سنائی اور پھر چاروں صوبوں کی الگ الگ دھنیں۔ سچ مچ لطف آ گیا۔ قمر ریاض نے اتنا بڑا میلہ علی پور چٹھہ میں لگا لیا۔