ایران اور امریکہ کا تنائو جاری ہے اور خطے میں تبدیلیوں کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ بھارت کے انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے مودی سرکار ایک بار پھر پہلے سے بھی زیادہ سیٹوں کے ساتھ حکومت سنبھالنے کو ہے۔ انڈیا میں الیکشن کا عمل مکمل ہوتے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان اچانک برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ فروری میں مودی سرکار نے جو پلوامہ سے لے کر بالا کوٹ کے فضائی حملے کا ڈرامہ رچایا تھا وہ انتخابات جیتنے کے لئے تھا اور انتخابی نتائج بتا رہے ہیں کہ انکو اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا ہے۔چوکیدار بن کر انہوں نے جو عوام کو چونا لگایا وہ کام دکھا گیا۔اب دوسری ٹرم میں نریندر مودی علاقائی تعاون کے سلسلے میں کیا گل کھلاتے ہیں اس پر خطے کے امن اور معیشت کا دارومدار ہو گا۔ اگر تو الیکشن میں اختیار کیا گیا پاکستان کے خلاف نفرت والا بیانیہ جاری رہتا ہے تو پھر معاملات بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔سر دست شنگھائی تعاون تنظیم کے بشکک (کرغزستان) میں ہونے والے اجلاس میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کے درمیان جو غیر رسمی ملاقات ہوئی ہے اس سے تو امید بندھی ہے کہ بی جے پی اپنے الیکشن کے بیانئے کو صرف جیتنے کے لئے استعمال کر رہی تھی اور اب معاملہ فہمی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔پاکستان کی طرف سے بھلے قومی قیادت ہو یا عسکری سب ہی نے بارہا باہمی گفتگو سے پاک بھارت تنازعات کے حل پر زور دیا ہے۔اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں سے جاری کشمکش ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ خطے میں دیر پا امن کے قیام کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ پاکستان علاقائی تعاون کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں سب سے اہم چین اور سعودی عرب ہیں۔ اسکے بعد روس، ایران، افغانستان اور ترکی ہیں۔ہم اپنے خطے میں جتنا مضبوط اتحاد بنانے میں کامیاب ہوں گے اتنا ہی امریکہ کے اثر و نفوذ سے آزاد ہونگے۔یہ ممالک اگرسی پیک میں بھی شامل ہو جاتے ہیں تو ایک بہت مضبوط علاقائی اتحاد وجود میں آ جائے گا۔ اسکی وجہ سے بھارت کے رویے میں بھی تبدیلی کے امکانات روشن ہو جائیں گے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ بھی اس علاقائی اتحاد کا ایک اہم اور مخلص جزو بننے پر تیار ہو جائے۔ اپنی حالیہ پریس کانفرنس میںڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اس امر کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ سی پیک صرف شمالاً، جنوباً ہی نہیں بلکہ مشرقی اور مغربی لنک بھی فراہم کرتا ہے۔ اب بھارت کو یہ ادراک کرنا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ نہیں۔ اسکو ہم پیغام بھی کہہ سکتے ہیں اور دعوت بھی کہ آئو اس علاقائی تعاون کے عمل کا حصہ بنو اور اس سے حاصل ہونے والے معاشی مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائو۔اگر بھارت اس تجویز کا خیر مقدم کرتا ہے تو بہت جلد پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی راہیں کھل جائیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کو زمینی راستے سے افغانستان ، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی ملتی چلی جائے گی۔ یہ تو انڈیا اور مودی سرکار کے جاننے کی بات ہے ، ہمارے لئے جو اہم بات ہے وہ پاکستان کے اندر ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جو ہمارے علاقائی تعاون کے خواہشمند ممالک کو خوش آمدید کہے۔ اگر ہماری اپوزیشن جماعتیں اپنی سیاست کی خاطر اس قسم کا ماحول ملک کے اندر پیدا کر دیں گی جس سے سیاسی افراتفری پھیلے تو پھر یہ علاقائی تعاون کا خواب ،خواب ہی رہے گا اور اس ملک کے عوام کی قسمت بدلنے کے دعوے دھرے رہ جائیں گے۔ خاص طور پر جس قسم کی تحریک کی بات جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں اس سے زیادہ خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کوئی بہت موئثر تحریک چلا سکیں گے کیونکہ دوسری اپوزیشن جماعتیں تا حال ان سے تحریک چلانے کے معاملے پر متفق دکھائی نہیں دیتیں لیکن وہ جو مدارس کے طلباء کو سڑکوں پر نکالنے کی بات کر رہے ہیں اس میں بہت خرابی پوشیدہ ہے۔ بھلے وہ چند ہزار ہی نکالیں لیکن اسلاموفوبیا کے شکار بین الاقوامی کارندے متحرک ہو جائیں گے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نو گیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ نے جس قسم کا پراپیگنڈہ انتہا پسند اسلام کے حوالے سے کیا ہے اس سے دنیا کے تقریباً تمام غیر مسلم ممالک نے بہت اثر لیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکارہیں بھلے روس امریکہ اور چین کے درمیان لاکھ اختلافات ہوں یا یورپی ممالک کے درمیان تجارتی مسائل ہوں لیکن اس معاملے پر وہ سب ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ اور شدت پسند مسلمانوں کو دنیا میں امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔اسی تاثر کی آڑ میں وہ کبھی پاکستان کو ڈو مور کا حکم دیتے ہیں کبھی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ اب ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ہمیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ جیسے معاملات میں پھنسانے کی کوشش جاری ہے۔ اسی طرح سے دوسرے اسلامی ممالک کو امریکہ آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ سعودی عرب بھی مشکل میں ہے جبکہ ایران کے خلاف ایک بار پھر امریکہ نے پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے اور اپنے بحری بیڑے کو بھی خلیج فارس میں لا کھڑا کیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں مزید شرارتیں کرنے کے موڈ میں ہے۔ ترکی کے ساتھ بھی امریکی مخاصمت جاری ہے۔ ہمیں جانے انجانے میں اسکی مکروہ سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔اس موقع پر اگر پاکستان کے اندر کوئی سیاسی افراتفری جنم لیتی ہے اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن جس طریقے سے تحریک چلانے کا سوچ رہے ہیں تو اس کے اثرات حکومت کے لئے تو شاید اتنے زیادہ نہ ہوں جتنے ریاست کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔اسی لئے شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) عید کے بعد تحریک کے حوالے سے بہت ذوق شوق نہیں دکھا رہے ۔ امید ہے مولانا بھی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔