’’بیگم بیگم…کیا زلزلہ آ رہا ہے’’میں نے کار کے سٹیرنگ پر ہاتھ مار کر کہا‘‘ ذرا باہر دیکھو۔ دائیں بائیں جتنی بھی عمارتیں گزر رہی ہیں وہ سب کی سب لرزش میں ہیں۔ لگتا ہے کہ ابھی ابھی کڑم دھم گر جائیں گی۔ بیگم قیامت آنے والی ہے۔ مجھے اس ملک کی تباہی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ بیگم کچھ تو بولو’’بیگم نے حسب معمول میری جانب خشمگیں نظروں سے دیکھا‘‘ یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ کچھ دنوں سے لگتا ہے کہ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہو۔ باہر گزرتی عمارتیں ہرگز لرزش میں نہیں ہیں اور یہ ملک ماشاء اللہ قائم دائم ہے۔ کیوں بکواس کرتے ہو کہ یہ تباہ ہونے کو ہے۔‘‘ اچھا ذرا دیکھو یہ جو فٹ پاتھوں پر لوگ چلتے جا رہے ہیں‘ یہ جو ہجوم ہے‘ یہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا چیخ و پکار نہیں کر رہا۔ حکمرانوں کو لعن طعن نہیں کر رہا۔ تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب کیا دھرا نئی حکومت کا ہے‘ یہ ناتجربہ کار اور ناہنجار ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں۔ کیسے خود بھی کھایا جاتا ہے اور اپنے حواریوں کو بھی کھلایا جاتا ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں‘ انشاء اللہ یہ حکومت خود بخود چھ ماہ کے اندر اندر اپنے غیر منطقی انجام تک پہنچ جائے گی اور اس کے بعد گلیاں سونی ہو جائیں گی اور ان میں مرزا یار پھرے گا۔ زرداری دلدار پھرے گا۔ میاں کاروبار پھرے گا اور تب راج کرے گی خلق خدا‘ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو‘‘’’تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں‘ کار یہاں سے موڑو اور گھر واپس چلو۔‘‘ ’’تمہارا مطلب ہے میں بھی یو ٹرن لے لوں۔ ہرگز نہیں۔ کار سیدھی بھی جائے گی‘ چاہے بھاڑ میں جائے۔ یو ٹرن نہیں لوں گا۔ سیدھا چلا جائوں گا۔ میرا نام اگر ای سی ایل پر ہوا تو بھی چلا جائوں گا۔ فرانس کے ایک قلعے میں چلا جائوں گا۔ لندن کے فلیٹوں اور جدہ کے محلات میں۔ امریکی فارم ہائوسوں اور دنیا بھر میں جتنی اربوں روپوں کی جائیدادیں رزق حلال سے خرید کر منی ٹریل کی لعنت سے آزاد وہاں چلا جائوں گا۔ سوئس بنکوں میں جو میری خاندانی وراثت کے کروڑوں ڈالر بیکار پڑے ہیں۔ ہیروں کے جو ہار پڑے ہیں‘ انہیں باکار کروں گا۔ لیکن یوٹرن ہرگز نہیں لوں گا۔ میں نے جب نوٹ کیا کہ بیگم اپنے موبائل پر 1122سے رابطہ کرنے میں مصروف ہے تب میں ذرا چوکنا ہوا اور یو ٹرن لے کر نہیں کار کو ریورس گیئر میں ڈال کر گھر لوٹ آیا۔ واپس آتے ہی میں نے ٹیلی ویژن آن کر دیا۔ تقریبا ہر چینل پر بڑے بڑے جگادری تجزیہ نگار جن میں سے بیشتر گئے زمانوں میں میری طرح مڈل کلاس تھے بلکہ تھرڈ کلاس تھے اور پھر دیکھتے دیکھتے کروڑوں میں کھیلنے لگے۔ خود سے تو نہیں انہیں پوشیدہ طور پر خوب کھلایا گیا۔ وہ سب جو میں نے کہا تھا وہی دوہرا رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے اتنے ماہ گزر گئے ہیں انہیں حکومت میں آئے ہوئے۔ یہ ناہجار ہیں ۔ ناتجربہ کار ہیں‘ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔ معیشت متزلزل ہو رہی ہے۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں بھوکے مر رہے ہیں۔ عمران خان یو ٹرن کا بادشاہ ہے۔ کہتا تھا کہ کسی سے امداد نہیں لیں گے ۔ اب مارا مارا پھرتا ہے۔ بھیک منگا ہو گیا ہے۔ اور وہ لوگ اتنے بیوقوف ہیں کہ اس کی جھولی اربوں ڈالروں سے بھر رہے ہیں۔ کوئی مفت میں تو امداد نہیں دیتا‘ جانے کیا کیا وعدے کر کے آیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ کون سے وعدے کر کے آیا ہے۔ اپنے باورچی سے کہتا ہے کہ دوپہر کو سبزی گوشت کھائوں گا اور پھر فوراً ہی یو ٹرن لے کر کہتا ہے کہ نہیں آلو گوشت کھائوں گا۔ کہتا تھا سادگی اختیار کروں گا اور پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل ایک ہی جیکٹ پہنے جا رہا ہے جو کہ بہت مہنگی لگتی ہے۔ تین کروڑ کی گھڑی باندھتا تو وہ اور بات تھی۔ ملک کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں جاتا ہے فی البدیہہ تقریریں اور وہ بھی انگریزی میں کر کے غیر ملکی لیڈروں پر رعب ڈالتا ہے۔ ذرا غور کیجئے یوں منہ زبانی تقریر کرنے سے منہ سے پتہ نہیں کیا کیا کچھ نکل جائے‘ جو قومی وقار کے منافی ہو۔ دیکھئے طریقہ تو یہ ہے کہ جو کچھ کہنا ہے وہ کسی سے چٹوں پر لکھوا لیجیے اور پھر عین مذاکرات کے وقت یا کہیں یو این او وغیرہ میں تقریر کرتے ہوئے ان چٹوں کو لرزتے ہاتھوں سے جیبوں میں سے نکال کر اٹکتے ہوئے بس پڑھتے جائیے۔ یوں غلطی کا کچھ امکان نہ ہو گا۔ بے شک چٹیں آگے پیچھے ہو جائیں اور لوگ کنفیوژ ہو جائیں کہ اس کو تو بین الاقوامی امور میں مہارت کہتے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار تو باقاعدہ اپنا سر پیٹ رہے تھے۔ اپنے آپ کو گالیاں دے رہے تھے کہ مجھ پر لعنت ہے‘ لعنت ہے‘ میں نے عمران خان کو سپورٹ کیا اور صرف میری سپورٹ کی وجہ سے ہی وہ حکومت میں آیا۔ اسے چوک میں کان پکڑوانے چاہئیں۔ اس طرح کرتے ہیں حکومت ۔ اگر حالات اتنے خراب تھے تو نہ لیتے حکومت ۔ بھئی کار کا انجر پنجر ڈھیلا تھا۔ انجن ٹھس ہو گیا تھا تو اسے کیوں حاصل کیا۔ لعنت ہے مجھ پر… ’’بیگم بیگم‘‘ میں نے فاتحانہ انداز میں کہا’’دیکھا دیکھا۔ یہ تجربہ کار ‘ تجزیہ کار خود کار اور باوقار لوگ بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے تجزیے پر اعتبار تو کرنا پڑے گا۔ ماشاء اللہ ان میں سے بیشتر کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور پھر اپنے فارم ہائوسوں کے لانوں میں چڑی چھکا کھیلتے ہیں تو معزز لوگ ہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں ناں صرف ایک کینسر ہسپتال اور صرف ایک نمل یونیورسٹی بنانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم وزیر اعظم ہو جائو اور وہ بھی پلے سے تو نہیں بنایا۔ چندے مانگ مانگ کر اپنی ماں کے لئے بنایا۔ یونیورسٹی بھی کہاں جا کر کسی غریب غربا خطے میں جابنائی۔ اس کا وہ پینڈو وزیر اعلیٰ دیکھو کہ نہ تو تقریر میں کسی کا پیٹ پھاڑنے کے وعدے کرتا ہے نہ سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتا ہے۔ بس چپ چاپ پھرتا ہے یہاں تک کہ کائو بوائے ہیٹ بھی نہیں پہنتا۔ اپنے بچوں کو پاکستان لانے کا بھی روادار نہیں۔ بھلا ان کے نام کے ہر شہر میں درجنوں ایکڑوں پر پھیلے ’’ہائوس‘‘ کیوں نہیں بناتا بلکہ خود بنانے کی ضرورت ہی درپیش نہ ہو بنے بنائے تحفے کے طور پر مل جائیں گے جن میں ہیلی کاپٹر اترنے کے مکمل انتظامات ہوں گے بہت بیکار وزیر اعظم ہے۔ بیگم نے ہمیشہ کی مانند سنی ان سنی کر دی اور پھر کہنے لگی’’تم ایک زمانے میں مجھے وہ پاہڑیاں والی کے کسی ایس ایچ او کا قصہ سنایا کرتے تھے جو تم نے بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔ وہ چودھری صاحب اور قریشی صاحب والا یاد ہے؟‘‘ ’’ہاں ہاں۔ دراصل میں تب بہت چھوٹا تھا۔ ساتھ والے گائوں میں ابا جی کے کسی دوست کے والد وفات پا گئے وہ افسوس کرنے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ شاید قل کا موقع تھا اور دارے میں ساری برادری اور آس پاس کے دیہات کے لوگ جمع تھے۔ اس علاقے میں سب سے بڑا قصبہ پاہڑیاں والی تھا اور وہیں واحد پولیس سٹیشن تھا۔ ان زمانوں میں مویشیوں وغیرہ کا چوری ہو جانا معمول تھا۔ علاوہ ازیں کاشتکاروں کے زمینوں کے تنازعات بھی چلتے رہتے تھے‘ چنانچہ ان حوالوں سے اس اکلوتے پولیس سٹیشن کی دیہاتی زندگی میں بہت اہمیت تھی۔ چنانچہ افسوس کی اس محفل میں پاہڑیاں والی تھانے میں تعینات نئے تھانیدار کا قصہ چھڑ گیا۔ وہاں جمع بڑے بوڑھے سر ہلاتے اس’’تبدیلی‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کرنے لگے کہ یہ جو نیا تھانیدار قریشی نام کا آ لگا ہے بہت بیکار ہے کسی کی سنتا ہی نہیں۔ قنون قنون کرتا رہتا ہے۔ یقینا کسی چھوٹے خاندان کا ہے۔ کمی کمین لگتا ہے۔ نہ سفارش مانتا ہے نہ رقم لیتا ہے۔ چودھری مدد علی نے حسب روائت اس نئے تھانیدار کے ہاں جا کر دو بھینسیں بندھوا دیں کہ قریشی صاحب جتنا عرصہ رہو گے بال بچوں کو دودھ کی کمی نہ ہو گی اور وہ ایسا بے ایمان نکلا کہ نہ صرف اس وقت بھینسیں کھول کر واپس کر دیں بلکہ دھمکی دی کہ آئندہ مجھے یوں رشوت دینے کی کوشش کی تو حوالات میں بند کردوں گا۔ لو جی یہ کوئی انصاف ہے۔ بات تو یہ ہے کہ وہ ہمارے کام آئے اور ہم اس کے کام آئیں۔ یہ تو ہماری زندگی اجیرن کردے گا۔ چودھری امانت کی سنا ہے گجرات میں کسی بڑے پولیس افسر سے واقفیت ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ اس کمبخت کا کسی نہ کسی طرح تبادلہ کرا دے۔ گواہی ہم دے دیں گے۔ اب جو چودھری اللہ یار تھے پچھلے تھانیدار صاحب۔ ہائے ہائے کیسے خاندانی آدمی تھے۔ سب کے کام آتے تھے۔ جائز ناجائز کے رپھڑ میں نہیں پڑتے تھے۔ جو خدمت کی قبول کر لی۔ کام کر دیا۔ قنون کی پٹیاں نہیں پڑھاتے تھے۔چند لوگ برخلاف تھے پر ان کو کون پوچھتا ہے۔ جتنا عرصہ رہے خلقت کو خوش رکھا۔ مسجد کی تعمیر کے لئے بھی اپنے پلے سے رقم دی۔ خوشی غمی پر بھی شریک ہوتے تھے اور ماشاء اللہ یہاں سے ریٹائر ہوتے ہی تو سرگودھا میں دو مربعے زمین ‘ گجرات میں کوٹھیاں‘ تین چار نسلی گھوڑیاں اور درجن بھر بھینسیں۔ تھانیدار تو وہ تھا۔ یہ بات لکھ لو۔ یہ قریشی بعد میں بھوکا مرے گا۔ اس کا تبادلہ کرائو بھائیا جی۔ مجھے یہ قصہ اب تک یاد ہے لیکن بیگم تم کیوں پوچھ رہی تھیں؟۔ ’’میرا خیال ہے ہمیں بھی نیا تھانیدار وارا نہیں کھاتا۔ یہ بھی قنون قنون کرتا رہتا ہے‘ نہ کھاتا ہے نہ کھانے دیتا ہے۔ اس کا بھی کسی نہ کسی طرح تبادلہ کرانا پڑے گا اور علاقے کی خوشحالی کے لئے بہتر ہے کہ پرانے تھانیدار کو پھر سے یہاں تعینات کرنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ بھی کھائے اور ہم بھی کھائیں سب موج اڑائیں۔ ٹھیک ہے ناں؟‘‘