علامہ اقبال اور نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی کی ایک دوسرے سے محبت تھی ،یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی ریاست بہاولپور کے ساتھ خط و کتابت جاری رہتی تھی ، علامہ اقبال کی چٹھیاں نواب بہاولپور کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر شمس الدین کے نام آتی تھیں۔ ان چٹھیوں کا خلاصہ میجر شمس الدین نواب بہاولپور کی خدمت میں پیش کرتے اور نواب بہاولپور احکامات جاری کرتے تھے ۔ان چٹھیوں کا ریکارڈ ’’صادق گڑھ پیلس ‘‘ میں موجود ہے اللہ تعالیٰ کرے نواب صاحب کی اولاد باہم صلح جو رہے تاکہ صادق گڑھ پیلس میں سرائیکی قوم کا تاریخی ورثہ اور دستاویزات کوگردش ایام کی نذر ہونے سے بچایا جا سکے ، بعض خاندانی تنازعات کی وجہ سے صادق گڑھ پیلس مقفل ہے جس سے ریاست بہاولپور کے متعلق قیمتی دستاویزات ضائع ہو رہی ہیں، اس کے علاوہ کروڑوں روپے کے طلائی برتن اور ہیر ے جواہرات بھی صادق گڑھ پیلس میں موجود ہیں ۔یہ الگ موضوع ہے اب ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ نواب آف بہاولپور کے نام علامہ اقبال کے خطوط اور تاریخی نوعیت کے ہیں ان خطوط کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے، جس طرح نصابی کتابوں میں غالب کے خطوط پڑھائے جاتے ہیں ، اسی طرح اقبال کے خطوط پڑھائے جانے چاہئیں۔ ایک دفعہ نواب بہاولپور کو ریاست کے لیے قانونی مشیر کی ضرورت تھی، ریاست کی طرف سے اخبار میں اشتہار جاری ہوا ،جب علامہ اقبال نے پڑھا تو انہوں نے لکھا کہ ریاست بہاولپور کے لئے قانونی مشاورت میرے لیے سعادت اور خوشی کی بات ہو گی ۔ اب ہم علامہ اقبال کے خطوں کے نمونے آپ کی خدمت میں پیش کریں گے ، یہ خط صاحبزادہ قمر الزماں عباسی کی کتاب ’’بہاولپور کا صادق دوست ‘‘میں سے حاصل کئے گئے ہیں۔ لاہور ۔5مئی 1929ء مائی ڈیر میجر صاحب میں آپ کو اس پیغام کے سلسلے میں خط لکھ رہا ہوں ۔ جو ابھی مجھ تک نہیں پہنچا۔ میں شکر گزار اور ممنون ہوں گا۔ اگر آپ مجھے فوری طور پر بتائیں کہ کیا آپ نے حیدر آباد خط لکھ دیا ہے۔ آپ مجھے لکھیں کہ میں نے ایسا کر دیا ہے۔ تاہم میری معلومات یہ ہیں کہ آپ کا خط ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچا۔ جیسا کہ میں بھی حیدر آباد خط لکھ رہاہوں۔کیونکہ مجھے اس معاملہ کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔اگر میں گیا تو خط میں کچھ نہ لکھوں گا ۔ آپ جانتے ہیں میں بہت بری صورت حال سے دوچار کر دیا گیاہوں۔ براہ کرم ایک سطر میں لکھ کر بھیجیں یا کوئی پیغام بھجوائیں۔ آپ کا مخلص محمد اقبال مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولوی صاحب اسلام علیکم ! کچھ مدت ہوئی ہے کہ مسٹر شمس الدین نے میجر شمس الدین کی زبانی مجھ سے کہا تھا ۔ کہ سرکار عالی کو ایک قانونی مشیر کی ضرورت ہے ۔ اور ا س سلسلے میں میجر صاحب نے آپ کا ذکر بھی کیا تھا ۔ پرسوں انہوں نے آپ سے شرف و نیاز حاصل کرنے کے بعد پھر اس امر کا تذکرہ کیا ۔ میں خود اس بارے میں جناب کی خدمت میں عرض کرتا۔ مگر افسوس کہ موقع نہ مل سکا یہ عریضہ محض اس غرض سے لکھتا ہوں کہ اگر میری خدمات کی سرکار عالی کو ضرورت ہو ۔ تو میں اس فرض بجا آوری کو اپنے لئے عین سعادت تصور کروں گا ۔ اور انشاء اللہ عزیز اپنے فرض کے ادائیگی سے قاصر نہ رہے گا ۔ اگر اس سلسلے میں اس بات کی ضروت ہو کہ میں بہاولپور حاضر ہو کر آپ سے زبانی عرض کروں اور نیز سرکار عالی کی زیارت سے بھی شرف اندوز ہوں تو مہربانی کر کے وقت سے مطلع فرمائیے۔ میں بسرو چشم حاضر ہوں گا ۔ اس مقصد کے لیے سرکار عالی کی سہولت کو مد نظر رکھنا فرض اولین ہے میں ہر وقت وقت نکال سکتا ہوں۔ جب آپ کا ارشاد ہو گا حاضر ہو جائوں گا ۔ امید ہے جناب کا مزاج بخیر و عافیت ہوگا۔ والسلام مخلص محمد اقبال یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال کو ریاست بہاولپور سے بہت محبت تھی اور اپنی نجی گفتگو میں ریاست بہاولپور اور اس کے فرمانروا کا ذکر بھی محبت اور عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ، علامہ اقبال کہتے مسلمانوں کے لیے ریاست کا فرمانروا نیک بھلے مانس اور خدا ترس آدمی ہے ، اسے علم کے ساتھ محبت ہے اور تعلیمی حوالے سے مسلمانوں کو بہت اونچے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے ایک دفعہ نواز بہاولپور علامہ اقبال کو بہاولپور آنے کی دعوت دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور بہاولپور آئے انہوں نے بہاولپور میں ہر طرف دین اور مذہب کا چرچا دیکھا ،اُن کو ہرطرف عمارتوں کا طرز تعمیر اسلامی نظر آیا ، بہت متاثر ہوئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر ادا ہوا۔ زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی عمارتیں اے تاجدارسطوت اسلام زندہ باد علامہ اقبال بہاولپور میں شاہی مہمان رہ گئے اس دوران انہوں نے نواب آف بہاولپور کے اسلامی جذبے خصوصاً تعلیمی خدمات کو شاندار لفظوں میں خراج عقیدت پیش کیا۔ممکن ہے کہ اقبالیات کے طالب علموں کے لیے یہ بات نئی ہو مگر یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسی بناء پر میں نے آج کا کالم تحریرکیا ہے اور یہ بھی درخواست کروں گا کہ یہ حوالے تاریخی بھی ہیں اور یادگار بھی ان کو حکومت اپنے طور پر محفوظ کرلے تو یہ آنے والی نسلوں کے لیے احسان عظیم ہو گا ۔