مزاحیہ کتابوں میں سکھوں کے لطیفے مشہور ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ سکھ عقلمند نہیں ہوتے، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف علم دوست ہی نہیں انسان دوست بھی تھے۔ ان میں ایک نام دیال سنگھ کا ہے۔ پچھلے دنوں تحریک چلی کہ غیر مسلموں کے نام پر قائم اداروں کے نام تبدیل کر دیئے جائیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود سابق وزیرا علیٰ شہباز شریف کا یہ عمل اچھا ہے کہ انہوں نے دیال سنگھ کالج، گنگا رام ہسپتال اور گلاب دیوی کا نام تبدیل نہیں ہونے دے ۔ جو انسان بھی اچھا کام کرے اُس کا نام باقی رہنا چاہئے، ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ سرکاری خرچ پر ذات کی تشہیر کی جاتی ہے جیسا کہ ملتان میں نوازشریف زرعی یونیورسٹی، شہباز شریف ہسپتال، چودھری پرویز الٰہی کارڈیالوجی سنٹر، کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ صاحبان دیال سنگھ کی طرح اپنے ذاتی خرچ پر ادارے قائم کرتے۔ ہر اچھے انسان کے بارے جاننا ضروری ہے۔ دیال سنگھ کالج لاہور کے بانی 9 ستمبر 1848ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ مجیٹھا امر تسر کے قریب ایک گائوں ہے۔ ان کے والد سردار لہنا سنگھ بہت امیر آدمی تھے، سکھا شاہی کے وقت پنجاب میں طوالف الملو کی پھیلی تو سردار لہنا سنگھ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوا ، وہ 1844ء میں لاہور سے کلکتہ چلے گئے۔ اپنے ساتھ جو دولت وہ لے کر گئے اس کا اندازہ ایک کروڑ روپے تھا۔ لاہور دربار کے سکھ سرداروں اور مہارانی جنداں نے انہیں لاہور واپس آنے کا پیغام بھجوایا لیکن وہ واپس نہ آئے بعدازں جب انگریزوں اور سکھوں کے درمیان سمجھوتہ ہوا تو وہ واپس لاہور آئے مگر پھر بنارس واپس چلے گئے جہاں 1848ء میں دیال سنگھ پیدا ہوئے۔ 1854ء میں دیال سنگھ کے والد فوت ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد جب ان کی والدہ بھی فوت ہو گئیں تو یہ فیصلہ ہو اکہ دیال سنگھ کو واپس مجیٹھا لایا جائے۔ لہنا سنگھ کی تمام جائیداد کورٹ آف وارڈ کے سپرد ہو گئی اور خالصہ دربار کے سردار تیج سنگھ کو دیال سنگھ کا گارڈین مقر رکیا گیا۔ دیال سنگھ کے لیے ایک انگریز گورنس مقرر کی گئی اور انہیں کرسچن مشن اسکول امرتسر میں داخل کیا گیا۔ دیال سنگھ نے فارسی، عربی، ہندی اور انگریزی کا وسیع مطالعہ کیا اور کرسچن مشن اسکول کے اساتذہ سے بائبل اور قرآن بھی پڑھے۔ مذہبی امور میں بھی ان کی دلچسپی کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فیروز پور کے ایک برہمن کی مدد سے گیتا بھی پڑھی۔ ان کی رہائش امرتسر میں تھی مگر لاہور اپنے کاروبار کے سلسلے میں اور فروغ تعلیم کے کاموں کے لیے آتے جاتے رہتے۔ انہوں نے لاہور میں زمینیں خرید کر ان پر 26 عمارتیں تعمیر کرائیں اور کرایہ پر دیں ان میں بھی غریب لوگوں کو کم کرایہ پر اوّلیت دی اس کے علاوہ ان کا کاروبار جواہرات اور جیولری کا تھا۔ کانگریس کے قیام کے سلسلے میں جن 17 آدمیوں کا بانی افراد میں نام آتا ہے دیال سنگھ ان میں سے ایک تھے۔ تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں وہ اس قدر متحرک تھے کہ اس کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں جب سرسید احمد خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کرنے پنجاب آئے تو دیال سنگھ نے ان کا استقبال کیا اور سریندر ناتھ بینرجی سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ کانگریس کے سالانہ اجلاس سے پنجاب کے مندوبین کی نامزدگی بھی دیال سنگھ نے کی۔ انہوں نے اپنے عقائد کی نشرو اشاعت کے لیے روزنامہ ’’ٹیبیون‘‘ جاری کیا جو قیام پاکستان کے بعد لاہور سے دہلی چلا گیا۔ ان کی کوششوں سے 1882ء میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی۔ ان کی وصیت کے مطابق دو ادارے دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ پبلک لائبریری ایک ٹرسٹ کے تحت وجو دمیں آئے۔ دیال سنگھ کالج سے علامہ تاجور نجیب آبادی ، ڈاکٹر تاثیر اور سید عابد علی عابد جیسے نامور اساتذہ وابستہ رہے۔ دیال سنگھ نے اچھا کام کیا اُس کا نام باقی رہے گا، ہمارے وسیب میں سردار، جاگیردار اور تمندار بہت ہیں ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ کبھی اس طرح کا کوئی ادارہ بنوائیں گے؟ سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں میں ایک نام سردار کوڑے خاں کا ہے جنہوں نے تعلیم کے فروغ کیلئے 86 ہزار کینال زمین وقف کی۔ علیگڑھ کالج سمیت بہت سے تعلیمی اداروں کو تعلیم کے فروغ کیلئے گرانٹ دی۔ سرسید احمد خان اور سردار کوڑے خاں کا ایک ہی زمانہ ہے سردار کوڑے خاں کی وفات 1896ء میں اور سرسید احمد خان کی وفات 17مئی 1898ء میں ہوئی۔ جبکہ سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اپریل 1817ء ہے۔ سردار کوڑے خاں کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہو سکی ، لیکن اندازہ یہی ہے کہ سر سید احمد خان اور سردار کوڑے خاں ہم عمر ہوں گے۔اب صوبے کی باگ ڈور تونسہ کے سردار عثمان خان بزدار کے ہاتھ میں ہے اگر وہ زیادہ نہیں اتنا تو کریں کہ نصاب میں وسیب کے مشاہیر جو کہ دراصل پاکستان کے مشاہیر ہیں کا تذکرہ شامل ہو جائے۔ مظفرگڑھ میں ایک عرصہ سے یونیورسٹی کیلئے تحریک چل رہی ہے مگر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں، ڈی جی خان میں چاکر خان یونیورسٹی بنائی گئی ہے، حالانکہ چاکر خان ست گرہ اوکاڑہ میں دفن ہیں اور اُن کے نام سے اگر کسی یونیورسٹی کا استحقاق ہے تو اُسے بلوچستان یا اوکاڑہ میں ہونا چاہئے۔ ڈی جی خان میں سخی سرور کے نام سے یونیورسٹی ہونی چاہئے۔ اسی طرح مظفرگڑھ میں بلا تاخیر سردار کوڑے خان یونیورسٹی اُن کی 86 ہزار کینال وقف اراضی پر قائم ہونی چاہئے اور اُن کے علاقہ جتوئی میں کیڈٹ کالج اور میڈیکل کالج بھی بننا چاہئے اور سردار کوڑے خان جتوئی کی تمام اراضی قبضہ مافیا سے واگزار ہونی چاہئے اگر یہ کام سردار عثمان خان بزدار کریں گے تو وسیب کے لوگ اُن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔میں یہ بھی کہوں گا کہ اُن کو موقع ملا ہے تو وسیب میں یونیورسٹیاں اور کیڈٹ کالج بنوائیں۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ سابق صدر فاروق خان لغاری نے ڈی جی خان اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کیلئے کیڈٹ کالج منظور کرایا مگر پنجا ب کی حکومت نے کیڈٹ کالج نہ بننے دیا۔ اسی طرح خان پور میں کیڈٹ کالج کی تعمیر کا کام شروع ہوا افسوس کہ دس سالوں میں اُس کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ کل شہباز شریف برسراقتدار تھے انہوں نے جان بوجھ کر کیڈٹ کالج نہ بننے دیئے کہ وسیب کے لوگ فوج میں نہ جا سکیں اب عمران خان اور عثمان بزدار پر پہلا فرض یہی ہے کہ وہ حق تلفیوں کا ازالہ کرائیں اور وسیب میں کیڈٹ کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کرائیں۔