کل رات جہاںمیں تھا ‘ وہاں ایک بار پھر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں نیم راوین ہوں‘ اگرچہ یہ تقریب پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں تھی اور میزبان بھی اس کے پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک یونین کے صدر ڈاکٹر ممتاز تھے۔ یہ بہت دلچسپ سمبند ھ تھا۔ اور شاید لاہور کی علمی فضا میں ایک نئے دور کا آغاز۔ یہ جو میں نے خود کو نیم راوین کہا ہے تو اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ گورنمنٹ کالج کے لوگ اس رشتے پر فخر محسوس کرتے تھے۔کراچی میں انہوں نے بھی اپنی انجمن بنا لی۔ کراچی کی فضا ایسی تھی کہ لاہور یا پنجاب کا کوئی پڑھا ہوا شخص بڑی آسانی سے راوین سمجھا جا سکتا تھا مگر راوین نے بقائمی ہوش و حواس مجھے یہ اعزاز دے رکھا تھا۔ ان کے ہر خصوصی پروگرام کی میزبان میرے سپرد ہوتی تھی۔ حنیف رامے کا لیکچر ہو‘ حامد علی خاں کا شو ہو‘ سالانہ مشاعرہ یا اقبال پر مذاکرہ یہ اعزاز مجھے حاصل ہوتا کہ اس کا اینکر ماڈریٹر میزبان ہی ہوتا۔ ویسے بھی جب ساہیوال سے لاہور پڑھنے آیا تو گورنمنٹ کالج میری ترجیحات میں تھا۔ انگریزی میں داخلہ لینا چاہتا تھا اور گورنمنٹ کالج کا شعبہ انگریزی مشہور تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کی پنجابی بیورو کریسی کا بڑا حصہ اس ڈیپارٹمنٹ سے آتا۔ انٹرویو شروع ہوتا تو راوین کا سن کوئی انٹرویو کرنے والا بے ساختہ پوچھ لیتا‘ سراج کے سٹوڈنٹ ہو۔ سراج صاحب میرے بھی استاد تھے۔ ان دنوں وہ ریٹائر ہو کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات و لسانیات انگلسیہ کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج میں انٹرویو کے دوران اساتذہ نے مجھے نام ہی سے پہچان لیا۔ ان دنوں میں ادب پر لکھتا رہتا تھا۔ اگرچہ ایک طالب علم تھا۔ یونیورسٹی کا انگریزی ڈیپارٹمنٹ اور گورنمنٹ کالج پاس پاس بھی تھے اور ایک دوسرے کی تقریبات میں جانا بھی روز کا معمول تھا۔ ان دنوں لاہور کیا علمی شہر تھا۔ گورنمنٹ کالج ‘پنجاب یونیورسٹی‘ اورنٹیل کالج‘ اسلامیہ کالج‘ لا کالج ایک عجیب فضا تھی۔ جو دور تک جاتی تھی۔ سامنے نیشنل آرٹس کالج۔ پنجاب پبلک لائبریری یہ روایت بہت دور تک پھیل جائے گی جس میں مال روڈ‘ انارکلی‘ کتب خانے اور کتابوں کی مشہور دکانیں سب شامل تھے۔ میں جب ساہیوال سے آیا تو اس وقت ہم ساہیوال گورنمنٹ کالج والے اپنے کالج پر اتنا ناز کرتے تھے کہ صرف جی سی کہنے پر ہم چڑ جاتے۔ بھئی کون سا جی سی۔ جی سی ساہیوال‘ فیصل آباد یا کوئی اور ۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ گورنمنٹ کالج کی تاریخ لاہور کے علمی شہر بننے کی تاریخ ہے اور میں اسی تاریخ کا پروردہ ہوں۔ مجھے معلوم ہے‘ میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ کوئی حرج نہیں۔ یہ فخر کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ اب لاہور میں بھی نئی علمی روائتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ گورنمنٹ کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے حال ہی میں چارج سنبھالا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں نئی یونیورسٹیوں کی بنیاد پنجاب یونیورسٹی میں پڑتی تھی یا علی گڑھ وغیرہ سے لوگ آیا کرتے تھے۔ اب نئی یونیورسٹی پاکستان میں یہ مقام حاصل کر چکی ہیں جن کے اساتذہ پورے ملک میں علم کی شمع جلا رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر مختار بھی جی سی کے نئے وائس چانسلر کی طرح ایک یہ یونیورسٹی کے ایک ہی شعبے کے پڑھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں پنجاب میں کوئی 9وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی کے تھے۔ اس پر وہ فخر بھی کرتے تھے۔ اب پنجاب میں کئی یونیورسٹیاں ہیں۔ اسلام آباد کی نسٹ(NUST) لاہور کی لمز‘ غلام اسحق خاں یونیورسٹی(GIK)اس کے علاوہ نجی اور سرکاری شعبے میں شہر شہر کھلتی ہوئی نئی یونیورسٹیاں توسیع کا ایک زمانہ تھا جب دھڑا دھڑ یونیورسٹیاں کھل رہی تھیں اور کھلتی ہی جا رہی تھیں۔ اس تقریب کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجاہد کامران کے طویل دور اقتدار کے بعد یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔ انہوں نے کچھ سوال اٹھائے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے بات کو آگے بڑھایا۔ کہنے لگے ہم SAACEکے نام پر ایک ادارہ بنا رہے ہیں۔ سوشل پالیسی ایڈوائزری سنٹر تھرو ایجوکیشن ۔کچھ ایسے ہی نام کا مخفف ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے اساتذہ میں یہ احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ صرف تعلیم دینا ہی اہم نہیں بلکہ سماج پر اس کے اثرات مرتب کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی سنجیدہ سیمینارنہیں تھا۔ ایک ڈنر پارٹی تھی۔ تاہم اس موقع پر بھی ایک دانش کا ایسا اجتماع ہو تو ممکن نہیں کہ علمی بات نہ ہو۔ باتیں بھی کھل کر ہوئیں اور کسی تنائو کے بغیر ہوئیں۔ تعلیم کا انڈسٹری سے کیسا رشتہ ہو‘ خود تعلیم کا اعلیٰ علمی معیار کیسے قائم رکھا جائے۔ اساتذہ کو کس طرح صرف اور محکمہ جاتی ترقی تک محدود رکھنے کے بجائے علمی وسعت کے افق پر پرواز کرنے پر اکسایا جائے۔ ایک طرف تو سائنس کی دنیاہے جہاں تحقیق کے اپنے انداز ہیں۔ دوسری طرف سوشل سائنسز ہیں جو کسی تعلیمی ادارے کا کلچر پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں نے اپنے اپنے نصب العین کے مطابق علی گڑھ‘ جامعہ ملیہ دلی جیسے ادارے پیدا کئے۔ تاہم لاہور کے اداروں کا بھی اپنا کلچر تھا۔ راوین اپنے کلچر پر ناز کرتے تھے۔ مخالف اس کے سرکاری ہونے کی وجہ سے اس پر پھبتیاں کستے تھے۔ یہ سب کچھ جو یہاں تھا جس کا میں نے ذکر کیا ہے یونیورسٹی اورنٹیل کالج تھا حتیٰ کہ مال روڈ کی دونوں طرف پھیلی عمارتیں‘ لائبریریاں ‘ انارکلی‘ دیال سنگھ کالج لائبریری‘ برٹش کونسل‘ ٹی ہائوس‘ چائنیز لنچ ہوم‘ گھوڑے پر گورنمنٹ کالج جاتے ہوئے محمد حسین آزاد اور ساتھ پہلو میں طلبہ کا ایک اجتماع جو علمی باتیں بھی کرتا جاتا‘ شام کو مولانا صلاح الدین کا پیدل مال پر مارچ کرنا۔ علامہ اقبال کا انہی برآمدوں اور انہی شاہراہوں پر موجود ہونا‘ ایک کلچر تھا جو پیدا ہوا تھا۔طلبہ رات کو فارغ ہو کر اساتذہ کے گھر ملنے چلے جاتے۔ وہ بھی شاید انتظار میں ہوتے۔ انارکلی کی سیر بھی اس کا حصہ ہوتی۔ گورنمنٹ کالج بجا طور پر اس کلچر کی وراثت کا حصہ دار گنا جا سکتا ہے۔ ان دنوں تعلیم کی نجکاری نے کئی مسائل پیدا کئے۔ تاہم اعلیٰ ترین سطح پر اگر اساتذہ ایک تعلیمی کلچر پیدا کرنے میں مستعد ہوں جو صرف علمی تعلیمی نہ ہو۔ بلکہ تعلیم کے سوشل اثرات پر نظر رکھے تو لاہور دوبارہ اسی تعلیمی کلچر کی علامت بن سکتا ہے۔ میں چونکہ دونوں کیمپوں کا پڑھا ہوا ہوں۔ دن میں ڈیپارٹمنٹ اولڈ کیمپس میں اور رہائش کے لئے ہوسٹل نیو کیمپس میں‘ اس لئے ایک نئے علمی کلچر کا کسی اور سے زیادہ منتظر ہوں۔ ترسا ہوا ہوں اور اس کے خواب دیکھ رہا ہوں۔ ہماری بہت سی درگاہیں اپنی فیسوں اپنے کیمپس ‘اپنے اساتذہ اور علمی معیار کی وجہ سے مشہور ہو رہی ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا پوچھ لیا کہ آپ لوگوں نے اس یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا۔ جواب آیا یہ لاہور کی تیسری بڑی یونیورسٹی ہے۔ چلئے کچھ تو پہچان ہو۔ تاہم بات تب ہی بنے گی جب ہماری یونیورسٹیاں اپنی اپنی پہچان بن جائیں۔ وگرنہ سب کچھ کھوکھلا سا رہے گا۔ فی الحال ان درسگاہوں کے درمیان ایک ایسی سپیس پیدا کرنے کی کوشش اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کوئی خلا موجود ہے جسے پر ہونا ہے۔ لاہور ہمیشہ برصغیر کا ایک علمی و تہذیبی مرکز گنا گیا ہے۔ اللہ کرے اس کی یہ شہرت پھر سے تازہ ہو۔