انسانوں کے اس ہجوم میں اپنے علم و فضل کا لوہا منوا لینا اور اس انبوہ میں شخصیات کاابھرکرسامنے آنا ذرے سے آفتاب ہونے کے مثل ہوتاہے۔علم وفضل کے یہی آفتاب جب ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہوجاتے ہیں تویہ بڑے سانحات ہوتے ہیں اوران سانحات کے وقوع پذیرہونے پرزبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے ہیں’’موت العالم موت العالم‘‘ کئی ماہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پے درپے علمائے کرام اورصلحائے امت کاسایہ اٹھ رہا ہے؟بلکہ اس سال کے آغازسے ہی ایسے سانحات پیش آرہے ہیں۔ دور حاضر کے فکری و نظریاتی فتنوں کے پرآشوب میںامہ کوداغ مفارقت دینے والے علمائے کرام اورصلحا ئے عظام کی وفیات پرکئی دنوں سے بے کلی محسوس کررہاتھاکہ کم ازکم ان خورشیدان عالم پرلکھوں جوخونین شفق میں ہمیشہ کیلئے چھپ گئے۔ ’’کشمیر‘‘ جو میراخاص موضوع ہے سے ایک دن کی مہلت مانگتے ہوئے آج رفتگان علماء وصلحاء امت پر انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ صاعقہ اثرکالم لکھ رہاہوں۔دل تھام کرجن رفتگان صاحبان علم وفضل کے وصال کااجمالی تذکرہ کررہاہوں ،ان حاملین زہد و تقویٰ اورمرنجاں مرنج اور نابغ روزگار شخصیات میںعظیم مفسرین قرآن، عظیم محدثین، باکمال معلمین، ہوش مند مربیین ،بے باک مقررین، بیدار مغز منتظمین اور درجنوں کتابوں کے مصنفین اورایسے محققین شامل ہیںکہ جوتحقیق و تدقیق کے سمندر تھے ۔جبکہ کئی حضرات علمائے کرام بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ایسے خطیب تھے جب بولتے توسامعین کے کانوں میں رس گھولتے تھے ۔ حالیہ مہینوں میںبرصغیرپاک وہندمیں علمائے کرام و صلحائے عظام جو امت مسلمہ کو داغ فراق دیکر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان نامور علماء اوردینی شخصیات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے مفسر قرآن علامہ حافظ صلاح الدین یوسف ،مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر خالد محمود ،شیخ الحدیث مولانا سراج الدین،شیخ الحدیث مولانا عبدالرئوف ،مولانا عزیز الرحمن ہزاروی،مولانا شاہ عبدالعزیز،قاری ارشد حسن ثاقب،مفتی محمد نعیم، مولانا عبید الرحمن ضیا ، سید منورحسن رحم اللہ تعالی کے نام اپنے کام کی وجہ سے زبان زد عام ہیں۔ ہندوستان سے جوعلماء کرام امسال وفات پاگئے ان میں مولانا سعید احمد پالنپوری، شیخ التفسیر مولانا برھان الدین سنبھلی، استاذ الحدیث مولانا غلام نبی صاحب کشمیری ، استاذ المفسرین علامہ جمال الدین ،مولانا وصی احمد صاحب صدیقی ،مولانا متین الحق اسامہ صاحب،مولانا سید محمد سلمان صاحب مظاہری اس کے علاوہ بہت سارے علما کرام جن کا نام بھی احاطہ تحریر میں نہ آ سکا۔الغرض یہ کہ جیسے تسبیح کے دانے ٹوٹ کر یکے بعد دیگرے گرتے ہیں ایسے ہی اللہ والے اھل علم رخصت ہورہے ہیں۔ موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے یہ وہ علمائے کرام اورصلحائے امت تھے کہ جنہوں نے سالہاسال تک اپنے مرکز علم میں لاکھوں تشنگان علوم کو مسلسل فیضیاب کیا ۔یہ امہ کے وہ روشن چراغ تھے کہ جنہیںا ہل علم کے حلقوں میں رہنمائی اور استفادہ کے لیے مراجع کی حیثیت حاصل تھی اور جید علما کرام ان کے سامنے زانوئے تلمذ کو طے کرنے کواپنے لئے بڑی سعادت مندی سمجھتے تھے۔رفتگان علماء وصلحاء کرام ایک سے بڑھ کرایک خلوص ، وفا ، شفقت ومحبت کی جیتی جاگتی تصاویر و استعارہ تھے ،سب کے سب اپنی گوناگوں خوبیوں اور محاسن و کمالات کے باعث ہرایک اپنے آپ میں مینارہ نور، چشمہ فیض، اپنے فن میں ایک انجمن اور علمی اکاڈمیات کی حیثیت رکھتے تھے ، آپ عصر حاضر کے ہزاروں علما فضلا وحفاظ کے استاد ومربی تھے اورسینکڑوں دینی اداروں نے جنم لیا، ہزاروں علما ء کرام نے تعلیم و تربیت حاصل کی، ہزاروں دینی کارکنوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت کی۔یہ وہ تھے کہ جوعلم و آگہی کے جواہر اور حکمت و دانائی کے موتی بکھیرتے رہے۔بے حدوحساب طلاب نے ان کے اداروں اورانکی عظیم درسگاہوںسے یہ موتی سمیٹ کر فکری خوراک اور روحانی قوت حاصل کی۔ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کسی چیز کو ثبات نہیں ، بس رب کی ذات موجود رہے گی ۔ ابتدائے آفرینش سے اس دشت فناہ کا یہ اصول رہا ہے کہ ہر آمد کے کے ساتھ رفت یقینی ہے نیک و بد کی تمیز کے بغیر ہر ذی روح کے ساتھ فنا کا دستور مساوی ہے عالم کی ادنی سی شی بھی فانی ہے اور یہ اصول تا ابد قائم رہے گا مگر ایسے بھی لعل و گوہر آنکھوں کا تارے، دلوں کا مہ پارہ سیم و زر سے بھی قیمتی ہستیاں ہوتی جن کی فرقت اس حسین چمن کو بے رونق کر دیتی ہے ۔ہجر و وصال تو ایک امر لابدی ہے جس کا وجود متقین ہے اس سے دامن کشی ممکن نہیں مگر کچھ فرقتیں ایسی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ سہن کی قوت نہیں رہتی سال رواں جب دنیا ایک عذاب میں مبتلا تھے ہی کہ دوسری طرف اکابر کے رخصت کا سلسلہ چل پڑا میخانہ علم و فن کے ساقی اپنی دایمی منزل کی طرف کوچ کرنے لگے اور ہماری تشنہ لبی باقی رہ گئی ۔ علمائے کرام اورصلحائے عظام کا سایہ ہم سے اٹھ رہاہے اور علمی خزانہ لیکر اپنے رب کے حضور جا پہنچے مگر ان کی رحلت نے ہمیں آبدیدہ کردیا اورہمیں داغ مفارقت دے کر ہمیں افسردہ وحزین کرکے رکھ دیا ۔جو ستارے ہم سے روپوش ہوے ہیں اور جن آبگینوں سے ہم محروم ہوے ہیں یقینا وہ تمام اپنے آپ میں ایک نمایاں مقام اور ایک منفرد شناخت رکھتے تھے اور ان کی رخصت سے ہوئے نقصان کا تدارک ممکن نہیں ،وہ ماہر و باہر باکمال شخصیات تھیں۔ وہ اپنی جگہ پر صرف ایک انسان ہی نہیں بلکہ اپنی جگہ جہد مسلسل کی ایک ناقابل تسخیر عمارات تھے اور علم و عمل اور زہد و خشیت کے عملی نمونہ تھے ان کی فرقت ایک حسین عہد کے اختتام کا تتمہ ہے ان کے جانے سے علم و ادب کی شادابی ذرا سی بے رنگت لگے گی کیونکہ یہ تمام اپنے فن کے لیے ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے ۔