اس کا نام تو کچھ اور ہے مگر ہم اسے موسیٰ کہتے ہیں۔ جب ہم یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھے تو تب بھی وہ کچھ عجیب سا ہی تھا۔ لیکچر کے دوران کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں بناتا رہتا اور اگر کبھی استاد پوچھتا کہ موسیٰ میں نے کیا کہا ہے تو وہ لفظ بہ لفظ دہرا دیتا۔ اس کے والدین مسقط میں تھے اور وہ پاکستان میں اکیلا رہتا تھا۔ میں جب بھی اس کے گھر جاتا… اس کی سٹڈی میں دشت شناسی، نجوم، عملیات، وظائف اور قرآن مجید کے نسخے اس کی میز پر رکھے ہوتے۔ کلپ بورڈ میں لگے پیپرز میں ہینڈ پرنٹس بھی ہوتے اور ہندی انداز کی جنم کنڈلیاں بھی۔ ان کے ساتھ اس کے ہاتھ سے لکھے ہوئے کچھ نوٹس بھی۔ قریب ہی ایک چھوٹی میز پر عقیق، یاقوت اور نیلم کی انگوٹھیاں، مختلف انداز کی تسبیاں اور کمرے میں اگربتیوں اور عود کی خوشبو۔ نہ میں نے کبھی اس کے متعلق کریدا اور نہ اس نے کچھ کہا۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ جب بھی میں نے اس پٹاری کو کھولنے کی کوشش کی… درمیان میں کہیں دراڑ نہ آجائے۔ مگر اس کی ایک بات سب کلاس فیلوز کو بہت متاثر کرتی تھی۔ وہ کسی کا بھی چہرہ دیکھ کر اگر کچھ کہتا تھا تو بعد میں وہ بات درست نکلتی۔ دست شناسی میں بھی اسے ایک خاص مہارت تھی مگر ہم اسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ پھر ایک دن وہ بھی مسقط چلا گیا اور ہم غم روزگار میں الجھتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ رابطہ رہتا مگر بڑا بے ترتیب سا۔ پھر ایک دن اس کا فون آیا… ا س نے پاکستان میں آکر ملازمت کرلی تھی۔ لیکچرر شپ۔ مگر اس کی مصروفیات کچھ عجیب سی تھیں۔ وہ جب بھی جہاں بھی ملتا۔ اس کے ساتھ کچھ عجیب سا کوئی نہ کوئی بندہ ضرور ہوتا۔ یہ جو کلین شیو سے صاحب ہیں، سوٹ اور ٹائی میں ملبوس… کمرے کے اندر بھی دھوپ کا چشمہ لگائے ہوئے… یہ کون ہیں؟ ’’یہ کاظمی صاحب ہیں۔ اس وقت علم جفر میں ان کا کوئی ثانی نہیں‘‘۔ ’’اچھا‘‘… یہ جو دراز قد سے صاحب اُس دن تمہارے ساتھ تمہاری گاڑی میں تھے وہ کون تھے؟ ’’تم انہیں میرے روحانی استاد کہہ سکتے ہو‘‘۔ ہم خاموش ہوجاتے۔ اب اس کی اور میری پوسٹنگ ایک ہی جگہ پر ہوگئی۔ ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا اور پھر ایک دن وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کی ملازمہ سینڈوچ اور کافی لے آئی۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں مسقط کیوں گیا تھا؟ میں نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلادیا۔ میرے والد صاحب نے ایک دن مجھے بتایا تھا کہ وہاں پر ایک ہندو جوتشی ہے جسے علم نجوم میں کمال حاصل ہے۔ مجھے وہاں ایک بینک میں ملازمت مل گئی۔ ملازمت تو ایک بہانہ تھا۔ میں نے اس کی شاگردی اختیار کرلی۔ اب میں پیدائش کا مقام اور وقت جان کر زائچے بناسکتا ہوں۔ میں بھڑک اُٹھا۔ ’’موسیٰ کیا یہ گناہ نہیں ہے‘‘؟ہوسکتا ہے مگر مجھے جنون اور دیوانگی کی حد تک مخفی علوم سے لگائو ہے۔ میرا کوئی بہن بھائی نہیں۔ والدین اتنا دے گئے ہیں کہ معاش کا فکر نہیں۔ شادی اس لیے نہیں کرائی کہ میری مصروفیات اتنی بے ترتیب ہیں کہ لائف پارٹنر ڈسٹرب ہوگی۔ وہ بولتا رہا اور میں سنتا رہا۔ میرا خیال ہے کہ اگر تم اللہ سے لَو لگا لو تو تمہیں ان سب چمتکاروں سے نجات مل جائے گی۔ Unseen اور Unknown کو جاننے کی خواہش بھی رضائے الٰہی کے تابع ہوجائے گی اور تم کسی منزل تک بھی پہنچ جائو گے۔ پھر ایک دن جونہی میں کلاس سے لیکچر کے بعد باہر آیا وہ سامنے کھڑا تھا۔ بازو پکڑ کر کیفے ٹیریا میں لے گیا۔ جوس آرڈر کیا اور کہنے لگا ’’تلاش ختم ہوگئی‘‘۔ میں کچھ نہ سمجھا۔ اس لیے خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ ’’ڈیئر تم کہتے تھے ناں یہ شرک ہے۔ بس وہ بھی یہی کہتے ہیں‘‘۔ ’’کون‘‘؟ شاہ صاحب۔ کون شاہ صاحب؟ بتارہا ہوں۔ میں اندرونِ شہر فٹ پاتھ پر تصوف اور روحانیت پر کچھ کتابیں تلاش کر رہا تھا کہ ایک صاحب نے میرے ہاتھ سے کتاب لے کر کہا … اس میں علم جفر کی بالکل سمجھ نہیں آتی مسٹرموسیٰ۔ تو پھر کیسے سمجھ آتی ہے؟ تم جس شے کو کتابوں میں تلاش کررہے ہو وہ نظر کا فیضان ہوتا ہے۔ یہ نظر نظر کے چراغ ہیں۔ تم میرے گھر آنا… پھر بات ہوگی۔ موسیٰ اگلے دن ان کے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھا اُن سے مکالمہ کر رہا تھا۔ وہ موسیٰ کو کہنے لگے ’’آج تک تم نے جو کچھ سیکھا ہے کیا اس سے کسی ہونی کو انہونی بنایا جاسکتا ہے‘‘؟ ’’نہیں‘‘۔ موسیٰ نے جواب دیا۔ تو پھر یہ علم ناقص ہوا ناں جو تم نے اب تک سیکھا ہے۔ اگر تم اس سب کو خیرباد کہہ دو تو میں تمہیں کچھ ایسا بتائوں گا کہ پھر تمہیں ان زائچوں، ہینڈ پرنٹس اور چلّوں کی ضرورت نہ رہے گی۔ کائنات کے مالک سے ربط پیدا کرو۔ اس راستے پر چلو جس کی منزل رب ہے۔ جو مالک سے محبت کرتا ہے… خالق اس سے بھی زیادہ شدت سے اُسے چاہتا ہے۔ موسیٰ کے مطابق کچھ Yes اور کچھ Nos طے پائے اور یہ بھی کہ اس راستے پر واپسی کا کوئی سفر نہیں۔ واپسی کا مطلب؟ وہ موسیٰ نے نہیں بتایا۔ میرے اصرار پر موسیٰ نے ان سے اجازت طلب کی اور میری بھی ملاقات کروادی۔ بات علم اور معلوم کی نہیں۔ بات اس سے آگے کی ہے۔ عدم اور موجود کیا ہے؟ بقا اور فنا کی حقیقت کیا ہے؟ غیب اور معلوم کیا ہے؟ مادہ اور روح کا باہم تعلق۔ جب میں ان کی باتیں سن رہا تھا تو میرے سامنے ان سب دانشوروں کے چہرے گھوم رہے تھے جو مادے ہی کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ حاضر اور موجود ہی کو سب کچھ مانتے ہیں۔ اس دنیا سے ماوریٰ کسی ہستی یا مقام سے یکسر منکر ہیں۔ درویش کہتا ہے کہ دانش ور اور درویش میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے۔ درویش تمہیں تمہارے قد سے بڑا کرکے دکھاتا ہے۔ اللہ کی کائنات پر یقین اور بھروسہ سکھاتا ہے۔ دانشور … اپنی دانشوری کے زعم میں تمہیں تمہارے اصل قد سے بھی چھوٹا کردیتا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’یہ جو دنیاوی علم ہے ناں… یہ موجود کا علم ہے۔ یہ جو الُوہی علم ہے ناں … یہ ان اشیاء کا علم ہے جسے بصارت نہیں صرف بصیرت دیکھ سکتی ہے۔ اللہ پاک جسے بصیرت کا علم عطا کرتا ہے اسے علم لدنی کہتے ہیں۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے، کائنات کا رب اپنی کتاب مبین میں واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہے۔ اب جب بھی موسیٰ کو دیکھتا ہوں اس کے لیے میرے چہرے پر احترام کا تاثر گہرا ہوجاتا ہے۔ موسیٰ کے چہرے پر ایک مستقل سکون اور اطمینان دیکھ کر میں بھی ایک انجانی سے مسرت محسوس کرتا ہوں۔