اطلاع ملی مسعود اشعر صاحب کے کالم سے کہ سرکاری عمال نے اردو کے تین علمی و اشاعتی اداروں کو ایک ہی ادارے میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ اخراجات میں کمی کی جا سکے۔ اس فیصلے کی ذمہ داری ڈاکٹر عشرت حسین کے سر ڈال دی گئی جو ان دنوں نئی حکومت کو بچت کرنے کے نئے نئے گر بتانے پہ مامور کئے گئے ہیں۔ مسعود اشعر صاحب کی اطلاع کا ذریعہ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر اور ممتاز نقاد ناصر عباس نیئر کا وہ ٹوئیٹ تھا جس میں درج تھا کہ ان کی اور افتخار عارف صاحب کی مخالفت کے باوجود تینوں اداروں یعنی اردو ڈکشنری بورڈ‘ اردو سائنس بورڈ کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر کے ایک ہی ادارہ بنانا طے پایا ہے۔ مسعود اشعر نے بجا طور پر یہ دلیل دی کہ تینوں اداروں کا دائرہ کار لگ الگ ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ اردو کی طویل ترین لغت مرتب کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا تھا۔ اردو سائنس بورڈ قومی زبان میں سائنس کے موضوعات پر کتابیں چھاپنے اور پڑھنے والوں میں سائنسی شعور عام کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا جبکہ ادارہ فروغ قومی زبان جس کا پرانا نام مقتدرہ قومی زبان تھا۔ اس کا مقصد وجود اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے عمل میں آیا تھا۔چونکہ ان تینوں اداروں کے مقاصد جداگانہ تھے اس لئے انہیں ایک ہی ادارے میں ضم کرنے سے تینوں اداروں کے کام اور ان کی انفرادیت کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے یہ فیصلہ نہ صرف نامناسب بلکہ انتہائی غیر دانشمندانہ ہے۔ مسعود اشعر ایک صاحب دل اور ہوش مند کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ فوراً ہی ہم نے افتخار عارف صاحب کو فون کھڑکایا تاکہ اطلاع کی تفصیل معلوم کی جا سکے۔ انہوں نے یہ بتا کے ہمیں اطمینان دلایا کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ ہاں جہاں اجلاس میں اور بہت ساری باتیں ہوئیں وہیں ان تینوں اداروں کے ادغام کی تجویز بھی دی گئی جس کی میں نے اور نیر صاحب نے مخالفت کی۔ جس پر بات آئی گئی ہو گئی۔ چونکہ افتخار عارف صاحب نے نہایت ذمہ داری سے اطلاع کی تردید کی تو ہمیں یقین تو آ گیا لیکن اس سوال کا جواب نہ مل سکا کہ حقیقت حال اگر یہی ہے تو ناصر عباس نیئر کو ٹوئٹر پر اس فیصلے کی اشاعت کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ فیصلہ ہوا ہی نہیں۔ ظاہر ہے اس کی وضاحت تو نیئر صاحب ہی کر سکتے ہیں۔ البتہ مسعود اشعر کو یہ فیصلہ اتنا ناگوار گزرا( اور گزرنا چاہیے بھی تھا) کہ انہوں نے ڈاکٹر عشرت حسین کی اچھی خاصی خبر لے ڈالی۔ واقعات و اطلاعات کے اس تیز رفتار زمانے میں اطلاع کا غلط نکل آنا کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔ لیکن ایسی اطلاع کا غلط نکلنا کہ جس میں اطلاع دینے والا چشم دیدی گواہ ہی نہیں۔ اس پورے عمل کا خود حصہ بھی تھا۔ نہایت تعجب خیز ہے۔ ناصر عباس نیئر صاحب بھی ایک ذمہ دار شخصیت ہیں جب سے انہوں نے سائنس بورڈ کا چارج لیا ہے۔ ان کی طرف سے یہ شکایت بھی اخبارات میں آ چکی ہے کہ بورڈ کی گرانٹ اتنی ناکافی ہے کہ اس ناکافی گرانٹ میں کوئی بڑا کام انجام دیا ہی نہیں جا سکتا۔ خیر یہ معاملہ تو دیگر علمی و تحقیقی اداروں کے ساتھ بھی ہے۔ قائد اعظم اکادمی جو حیات قائد پر تحقیق و تصنیف کیلئے قائم کی گئی تھی اور آج کل جس کے ڈائریکٹر ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر ہیں اس ادارے کا بھی اول آخر مسئلہ گرانٹ کی کمیابی ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے بعد اتنی رقم بھی نہیں بچتی کہ قائد پر تصنیف شدہ کتابیں چھاپی جا سکیں۔ پچھلے دور حکومت میں جب خواجہ صاحب نے بار بار گرانٹ میں اضافے کا تقاضا کیا تو انہیں جواب ملا کہ خاموشی سے کام کرتے رہے اور تنگ نہ کیجیے۔ خواجہ صاحب خاموش ہو بیٹھے۔ اب جبکہ ایک ایسی حکومتی آئی ہے جس کا نعرہ ہی ’’نیا پاکستان‘‘ ہے تو کیا نیا پاکستان علم و ادب اور زبان کی ترقی کے بغیر وجود میں آ سکتا ہے؟ فروغ قومی زبان ہی کا معاملہ لیجیے۔ صدر ضیاء کے دور حکومت میں یہ ادارہ قائم ہوا۔ صدر نے اپنے استاد ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو اس کا صدر نشیں بنایا۔ قریشی صاحب کی تاریخ پر جتنی معرکہ آرا کتابیں ہیں‘ وہ سب انگریزی میں ہیں لیکن قریشی صاحب اردو زبان کے قدر دان تھے۔ کراچی یونیورسٹی کی وائس چانسلری کے زمانے میں انہوں نے سنڈیکیٹ ‘ اکیڈمک کونسل اور دیگر اسٹیچوری باڈیز کی زبان انگریزی کی بجائے اردو رکھی۔ اردو سندھی تنازعہ جو بھٹو دور میںاٹھ کھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اردو کی نمائندگی کی۔صدر ضیاء کے دور میں جب انہیں مقتدرہ قومی زبان کا صدر نشیں مقرر کیا گیا تو سبھوں کو یقین تھا کہ ڈاکٹر صاحب صدر ضیاء کے ذریعے قومی زبان کو سرکاری زبان بنا کے دم لیں گے لیکن نہ صرف یہ کہ یہ یقین جلدہی شکوک و شبہات میں تبدیل ہوا اور پھر دم توڑ گیا۔ ساتھ ہی یہ سانحہ بھی ہوا کہ کراچی سے اس ادارے کو ڈاکٹر وحید قریشی کی صدر نشینی کے زمانے میں دارالحکومت منتقل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی اس ادارے کی حیثیت محض اشاعتی ادارے کی ہو کر رہ گئی۔ نفاذ اردو پر بیورو کریسی کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اردو میں انگریزی کی طرح ٹائپ رائٹر کا استعمال اس درجہ عام نہیں ہے کہ جو سرکاری مسودات کو تیزی سے ٹائپ کر سکے۔ پھر اصطلاحات کا بھی مسئلہ تھا جو نوٹنگ اور ڈرافٹنگ میں کام آ سکے۔ اصل بات جو نہیں بتائی گئی وہ یہ تھی کہ بیورو کریسی اردو زبان سے ناواقف ہے اور اعلیٰ افسران میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ انگریزی کی طرح اردو میں نوٹنگ اور ڈرافٹنگ کر سکیں۔ ہر چند کہ مقتدرہ قومی زبان نے مسئلہ حل کر دیا۔ لیکن اصل بات تو نیت اور ارادے(will) کی تھی۔ ڈاکٹر انوار احمد جب اس ادارے کے چیئرمین بنے تو اس کا نام ہی نامعلوم وجوہ کی بنا پر تبدیل کر دیا گیا۔ یہ مقتدرہ قومی زبان سے فروغ قومی زبان بن گیا نام کی تبدیلی اس بات کا پیغام تھا کہ قومی زبان کا اقتدار اس ملک میں کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔ پھر یہ بھی کر دیا گیا کہ صدر نشیں یا چیئرمین کی جگہ اس عہدے کا نام منتظم اعلیٰ یا ڈائریکٹر کر دیا گیا۔ افسوس کہ ذرائع ابلاغ میں بھی اس دوررس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ ماضی میں تو اردو کے حق میں یہ دلیل دی جاتی تھی کہ ایشیا میں چین اور جاپان دو ایسے ترقی یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور انگریزی کی روٹی نہیں توڑی اور معاشی نیز ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ہمیں تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے مباحث بھی ازکار رفتہ ہو چکے ہیں۔ زبان مرتی ہے تو مرے۔ زوال آمادہ ہوتی ہے تو ہو۔ اب لوگوں کے جینے مرنے کے مسائل اس درجہ گھمبیر ہو چکے ہیں کہ زبان اور صحت زبان کوئی قابل التفات ایشو ہی نہیں رہااور ہم کہاں پہنچ کر رکیں گے؟ دنیا میں اپنا کوئی مقام بنا سکیں گے بھی یا نہیں۔ علم و ادب ‘ تحقیق و تفتیش کو چھوڑ کر کیا کوئی قوم ترقی کے بام ثریا پر آج تک پہنچ سکی ہے؟ یہ سوال سوچنے کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین پر چھوڑتا ہوں جو امور مالیات کے ماہر ہیں لیکن شاید سماجی علوم کی اہمیت سے ناواقف۔ ورنہ ان کی موجودگی میں ایسی ناکارہ تجویز پیش کرنے کی کسی کو ہمت ہی کیسے ہوئی؟