زندگی چونکہ اتنی مختصر ہے کہ اس کے اختتام کے قریب حسرتوں کی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔ خسارے کا عالم ایسے لوگوں کے لیے مزید دکھ بھرا ہوتا ہے جو وسائل رکھنے کے باوجود اپنے شوق کی رہگزر پر چلنے سے محروم کر دیئے گئے۔ایک زمانہ ایسا تھا کہ تحصیلِ علم کا راستہ صاحبان شوق کے لیے ہمیشہ آسان اور سہل ہوتا تھا۔صرف ایک ارادہ، نیتِ شوق کی پختگی، دنیا سے بے رغبتی اور قریہ قریہ گھوم کر علم کے چشموں سے سیراب ہونے کے لیے رختِ سفر باندھنا ہی ضروری تھا۔ یہ تمام امور صرف ایک فیصلے کے محتاج تھے۔ ایسا فیصلہ کہ میں نے دنیا میں کہیں بھی کوئی علم کا روشن چراغ اپنی روشنی بکھیر رہا ہے،تو اس کے ہالۂ نور میں کچھ دن گزارکر اکتسابِ فیض کرنا ہے۔ نہ قومی ریاستوں کی سرحدیں تھیں جن پر کھڑے پہرے دار آپ کو روک کر سفری دستاویزات طلب کرتے، کب تک رہوگے، کہاں جانا ہے، زاد ِراہ ہے کہ نہیں اور کتنے دن ٹہرنے کا اجازت نامہ تمہارے پاس ہے۔ ان دنوں جدید دور کی ایسی مشکلات تو تھی ہی نہیں کہ بغداد کے مدرسے سے ططیلیہ کے علمی مرکز پہنچے والے کو بیک وقت علم حاصل کرنے اور نانِ شبینہ کمانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے پرپیچ طریقِ کار نہیں تھے اور نہ ہی علم کا حصول کسی ڈگری کے حصول تک محدود ہوتاتھا۔ پیاسے ہر علاقے کے علم کے چشموں سے بقدرِ ظرف اپنی پیاس بجھاتے اور اپنی پوٹلی میں متاع علم کے موتی بھر کر واپس لوٹتے۔ یہ روایت آج سے صرف سو سال پہلے تک پوری دنیا میں موجود تھی۔ علم پر کسی کی اجارہ داری تھی اور نہ ہی اس کے حصول کے راستے میں کوئی دشواری۔ اسکندریہ کی لاکھوں کتب پر مشتمل لائبریری، ایتھنز میں سقراط، افلاطون اور ارسطو کی محفلیں، دجلہ و فرات کے کنارے میسو پوٹیمیا کے علمی مراکز، قدیم اسرائیل کی یشوا تعلیم کا اہتمام، دیوارِ چین کے قرب و جوار کے کسی شہر میں فلسفہ بکھیرتا، کنفیوشش اور ہندوستان میں ویدوں کی اپنشد اور بدھوں کے پتا کیا کا علم اگر کوئی حاصل کرنا چاہتا تو اس کو صرف ارادہ اور پختہ ارادہ کی ضرورت ہوتی۔ جس علمی مرکز میں بھی جاتا،کچھ دیر میں جسمانی مشقت سے دو وقت کی روٹی کمانے کے بعد سارا وقت اپنے شوق کی تکمیل کرتا۔ دنیا بدلی، بلکہ دنیا دو سو کے قریب قومی ریاستوں کے خانوں میں بٹ گئی۔ علم کا حصول شوق کی تکمیل نہیں بلکہ کسی دنیاوی مقصد سے وابستہ کر دیا گیااور سب سے بڑا مقصد یہ کہ تم علم حاصل کرکے کس قدر کمائی کر سکتے ہو، بازار میں تمہارے علم کی کیا قیمت لگے گی۔ وہ درجہ جو تاریخ میں کبھی ہنر کو حاصل ہوتا تھا کہ اس کے ذریعے دولت کمائی جا سکتی تھی، علم بھی آج اس سطح پر آگرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح انسانی تاریخ میں ہنر کو ایک دولت سمجھتے ہوئے، اسے چند مخصوص لوگوں تک سینہ بہ سینہ منتقل کیا جاتا تھا ،وہ ہی سلوک آج علم کے ساتھ بھی کیا جاتاہے۔ جس درسگاہ کی ڈگری مارکیٹ میں زیادہ مہنگی فروخت ہو ، اس درسگاہ کی علمی حیثیت اور مقام و مرتبہ بھی اسی قدر اہمت اختیار کرتا چلا گیاہے اور اس کی فیسیں بھی۔ آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شیخ سعدی ؒ کی طرح ’’جہاں گرد‘‘ بن کر ملکوں ملکوں گھومتا ہوا علم حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے وسیع دولت، سفرکے اجازت نامے اور سب سے بڑھ کے یہ کہ اس ملک میں آپ کو سکون و اطمینان اور بے خوفی سے رہنے کا ماحول چاہیے ۔ علمی پیاس کو بجھانے کا ایک راستہ کتب، تراجم سے نکلا اور اب انٹرنیٹ اور ویڈیو کے ذریعے صاحبانِ علم کی گفتگو بھی عام ہوئی ۔ لیکن یہ سب کچھ کسی علمی شخصیت سے براہ راست اکتسابِ فیض اور اس کی محفل میں بیٹھ کر علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اس محفل علمی کے ماحول کے اثرات کو اوڑھنے کی تمام لذتوں سے محروم ہے۔ یہ ہے جدید انسانی زندگی کا وہ المیہ جو آج تک ایک ایسی شخصیت کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ایک سانحہ اور پچھتاوا بن کر میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ بھارت کے شہر اعظم گڑھ میںیکم جنوری 1925ء کو پیدا ہونے والا آفتابِ علم ’’مولانا وحید الدین خان‘‘ ، 21اپریل 2021ء کو دلی میں ڈوب گیااور میں باجود، ارادہ، وسائل اور نیتِ شوق، قرونِ وسطیٰ کے اس خوابناک چہرے والے، بوریہ نشین علماء جیسے ملبوس زیب تن کئے اور علم کی چمک سے روشن آنکھوں والے شخص سے اکتسابِ فیض تو دور کی بات ہے ،اس کی ایک جھلک سے بھی محروم رہا۔ یوں تو آج کی جدید دنیا میں آپ اپنی پسندیدہ شخصیت کو جب اور جسطرح چاہیں، سن سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، اس کی گفتگو سے علم کے موتی چن سکتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی شخصیت سے ملاقات یا اس کی صحبت کا نعم البدل تو دور کی بات ہے، اِس کی قربت کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ آج سے تقریباً چالیس سال قبل جب مولانا وحید الدین خان کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ میرے ہاتھ آئی تو اس کا سحر ایسا تھا جیسے کوئی گھٹا ایک سمت سے چڑھے اور پھر پورے ماحول کواپنی لپیٹ میں لے لے، اور اس کے اندر کھڑے ہوئے ایک فرحتِ پایاں کا احساس آپ کو سرمستی کے عالم میں لے جائے۔ میں سوچتا تھا کہ کتاب کا یہ حال ہے تو صاحبِ کتاب کی صحبت کا عالم کیا ہوگا۔ میں اس سے پہلے ایک انتہائی حسین تجربے سے گزر چکا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد جب میں اچھرہ میں ان کی عصر کی محفل میں پہلی دفعہ شریک ہوا تو مجھے یوں لگا جیسے میں یکدم ان کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہوں۔ چہرے سے نظریں اٹھانے کو جی نہیں چاہتا تھااور گفتگو کا سحر ایسا، جس کے ٹوٹنے کا خوف ہی مجھے مزید ان کی جانب متوجہ کرتا چلا جا رہا تھا۔ مولانا وحید الدین خان کی ویڈیو گفتگو جب میں نے سننا شروع کی تو مجھے اپنی مجبوریوں کا احساس شدید ہوتا چلا گیا۔ میں چاہتا تھا ،یہ شخص اس ٹیلی ویژن سیٹ سے باہر نکل آئے، میرے سامنے کرسی پر آکر بیٹھ جائے اور میںزمین پر بیٹھ کر مبہوت ہوکر اس کی گفتگو سنوں، اس سے سوال کروں، میرے ساتھ مشتاقانِ علم کا ایک ہجوم ہو جو اسی طرح اسے سن رہا ہو، سوال کر رہا ہو۔ آج سوچتا ہوں کہ میں اگر اس کے شہر میں موجود ہوتا تو میری حالت اس طالبِ علم کی سی ہوتی جو یوں تو حسن بصری کے مدرسے کا خوشہ چیں ہوتا، لیکن چھپ کروقت نکالتا اور معتزلہ کے امام و اصل بن عطاء کی باتیں سننے چلا جاتا۔ علی گڑھ میں ڈگری کے حصول کے لیے داخل ہوتا، لیکن شامیں مولانا محمود الحسن کے دیوبند میں گزارتا اور علم کی پیاس بجھاتا۔ مولانا وحید الدین خان سے اتنی بندشوں کے باوجود بھی جو علم مجھے ملا ہے وہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ میں اس کا مکمل احاطہ تک نہیں کر پاتا۔ بے شمار دفعہ ایسا ہوا کہ جدید دور کے وہ سوالات جو سائنس اور الحاد نے اسلام کے متعلق اٹھائے ہیں، ذہن سے ٹکرائے تو ایک ہی نام سامنے آتا، اور جستجو اس تک لے گئی۔۔مولانا وحید الدین۔۔ کیا خوب عنوان ہے ان کی ایک کتاب کا ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘۔ کاش ہم اسلام کے دورِ جدید کو خلق کر سکتے۔ وہ دورِ جدید جس پر ٹیکنالوجی کا دھواں اور مادیت کی گرد چھا چکی ہے۔