جن دنوں میاں شہباز شریف، آصف زرداری کو کرپٹ سمجھتے تھے۔ زرداری اور اس کی لوٹ مار ٹیم کو علی بابا چالیس چور کہا کرتے تھے۔ ایک بار کسی محفل میں میاں صاحب کی ملاقات ایک پڑھے لکھے شخص سے ہو گئی۔ یہ صاحب ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور معروف ادیب سید شوکت علی شاہ تھے۔ میاں صاحب نے حسبِ عادت باتوں کے دوران پھر فرمایا کہ علی بابا او اس کے چالیس چوروں نے پاکستان کو بڑی بے دردی اور سنگدلی سے لوٹا ہے۔ یہ سن کر شاہ صاحب نے جنہیں صحت زبان و بیان کا بڑا خیال رہتا ہے، کہا:’’میاں صاحب، آپ نے بچپن میں علی بابا چالیس چوری کی کہانی پڑھی، معاف کیجئے گا،سنی ہو گی لیکن آپ کو یہ کہانی ٹھیک سے یاد نہیں رہی۔ کہانی کے مطابق علی بابا ایک شریف، سادہ لوح اور ایماندار شخص تھا؛چنانچہ آصف زرداری کو علی بابا کہنا ایسا ہی ہے جیسا کوبرا سانپ کو فاختہ کہنا، یہ سن کر میاں صاحب پریشان ہو گئے۔ ماتھے پر انگلی مارتے ہوئے بولے، ’’شاہ جی، میں تو جلسوں میں بیسیوں بار زرداری کو علی بابا کہہ چکا ہوں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں لا علمی میں اس کی تعریف کر رہا ہوں۔ میں بھی حیران تھا کہ زرداری کا سخت ردّعمل کیوں سامنے نہیں آیا۔ اندازہ لگائیں شاہ صاحب، کتنا مکار ہے یہ شخص! اب آپ ہی بتائیں کہ آنے والے جلسوں میں زرداری اور اس کے ساتھ ڈاکوئوں کو کیا کہہ کر پکاروں‘‘ اس کے جواب میں شاہ جی نے کہا ’’دیکھیں میاں صاحب، دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری مشکل کا حل لفظ زرداری میں موجود ہے۔ ہم یوں کرتے ہیں کہ زرداری سے لیتے ہیں زر اور علی بابا سے لیتے نہیں بابا۔ بن گیا زربابا۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں زربابا چالیس چور‘‘ یہ سن کر میاں صاحب خوش ہو گئے۔ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگے:’’شاہ جی، ایک مشکل کا حل تو آپ نے بڑا اچھا بتا دیا لیکن یہ جو آپ نے کہا ہے کہ زرداری سے ہم لیتے ہیں زر، تو جناب زرداری سے زر لینا ناممکن ہے۔ آپ کٹے سے دودھ لے سکتے ہیں لیکن زرداری سے زر نہیں لے سکتے‘‘ شاہ صاحب پہلے تو مسکرائے، پھر سنجیدگی سے فرمایا:’’میاں صاحب آپ نے میری بات پر غور نہیں فرمایا۔ زر سے میری مراد مال و دولت کے اس ڈھیر سے نہیں تھی، جس پر زرداری بیٹھا ہوا ہے۔ اس ڈھیر سے تو واقعی ایک تولہ سونا بھی نہیں لیا جا سکتا۔ لوٹا ہوا مال واپس کرنا ڈاکوئوں کے مذہب میں گناہِ کبیرہ ہے۔ میرا مطلب تو یہ تھا کہ یہ جو لفظ ہے نا زرداری۔ اس کے پہلے حصے یعنی زر کو ہم زرداری سے الگ کر لیتے ہیں۔ اُدھر علی بابا سے بابا کا لفظ لیتے ہیں اور یوں زر اور بابا کے حسین امتزاج سے زربابا کا لفظ بنا لیتے ہیں۔’’ویری گڈ۔ویری ویری گڈ‘‘میاں صاحب خوش ہو گئے’’تو گویا یہ طے ہے کہ لوٹا ہوا مال واپس نہیں لیا جا سکتا‘‘’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میاں صاحب‘‘’’لیکن میں نے تو جلسوں میں کئی بار کہا ہے کہ میں زرداری کو لاہور، کراچی، اسلام آباد اور امرت سر، سوری…حیدر آباد کی سڑکوں پر گھسیٹ کر اس کے پیٹ سے عوام کی لوٹی ہوئی دولت برآمد کر لوں گا۔ کئی لوگوں نے تو میری بات کا اعتبار بھی کر لیا تھا‘‘ ’’دیکھیں میاں صاحب، زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ الٹا سڑکیں خراب ہو جائیں گی اور پھر اس کے پیٹ سے تو سوائے گلی سڑی آنتوں کے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ آپ آنے والے انتخابی جلسوں میں یہ کہا کریں کہ ہم زرداری کو لاہور، اسلام آباد اور کراچی کی عدالتوں میں گھسیٹیں گے‘‘ ’’تو کیا عدالتوں کے ذریعے ہم اس سے دولت نکلوا لیں گے؟‘‘ ’’دولت تو پھر بھی نہیں نکل سکے گی البتہ محاورے کے اعتبار سے آپ کا فقرہ بہتر اور قابل اعتبار بن جائے گا اور لوگ پہلے کی طرح آپ کا توا نہیں لگا سکیں گے‘‘ ’’میرا توا سڑکوں والے فقرے کی وجہ سے نہیں لگتا۔ بھائی جان نے بتایا تھا کہ یہ جو تم ڈائس پر رکھے ہوئے مائیک ہاتھ مار کر گرا دیتے ہو اور زمین سے ڈیڑھ فٹ اوپر اُچھل پڑتے ہو، اس وجہ سے تمہارا توا لگتا ہے۔ اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھا کرو۔ انتخابی اکھاڑہ، پہلوانوں کا اکھاڑہ نہیں ہوتا کہ فلائنگ ککیں مارنے لگو۔ میں یہ کام نہیں کرتا حالانکہ میری شادی پہلوانوں کے خاندان میں ہوئی تھی۔ یاد رکھو، پہلوانوں کی کشتی اور سیاستدانوں کی کشتی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہر بڑا پہلوان باکردار اور سچا ہوتا ہے جب کہ سیاستدان اگر باکردار اور سچا ہو تو وہ سیاستدان نہیں بلکہ شریف آدمی کہلاتا ہے۔ یہ آپس کی باتیں ہیں، کسی اور سے مت کرنا‘‘ میاں صاحب کی اس لمبی تفصیل کے جواب میں شاہ صاحب نے کہا، ’’آپ کے بھائی جان نے جو کہا بالکل سچ کہا۔ وہ بہت بڑے سیاستدان ہیں۔ صرف سیاستدان ہی نہیں سیاست کی یونیورسٹی ہیں جس کا الحاق انہوں نے لندن یونیورسٹی سے کروا رکھا ہے‘‘ ’’شاہ جی، یہ آپ لندن کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟مجھے تو شک ہو رہا ہے کہ آپ بھی ہمارا توا لگا رہے ہیں‘‘ شاہ صاحب کو میاں صاحب سے اتنی سمجھداری کی توقع نہیں تھی۔ فوراً ہی سنبھلتے ہوئے بولے ’’نہ، نہ میاں صاحب!سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو خلوصِ دل سے اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا۔‘‘ یہ سن کر میاں صاحب مطمئن ہو گئے۔ تھوڑی دیر انگلی سے ناک کی مالش کرتے ہوئے بولے ’’شاہ جی، کیا آپ نے کبھی میری انتخابی جلسوں والی کوئی تقریر سنی ہے۔‘‘ ’’کئی بار، میاں صاحب، کئی بار‘‘ ’’گویا آپ بھی میرے جلسے attendکرتے ہیں‘‘ ’’معافی چاہتا ہوں میا ںصاحب، میں کبھی آپ کے جلسے میں تو نہیں گیا البتہ سوشل میڈیا پر کئی بار بلکہ بار بار آپ کی تقریریں سنی ہیں۔ اس کثرت سے سوشل میڈیا پر آپ کی تقریریں وائرل ہونا، اس بات کا الیکٹرانک ثبوت ہے کہ آپ کی مقبولیت آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔‘‘ ’’آخری کا کیا مطلب؟؟کیا میں سیاست سے آئوٹ ہونے کے قریب آ گیا ہوں؟‘‘’’جی میرا مطلب تھا کہ آپ بہت زیادہ پاپولر ہو چکے ہیں‘‘’’ہاں، وہ تو ہے۔ آپ suggestکریں۔ میں اپنی تقریر کو زیادہ مؤثر اور بہتر کیسے بنا سکتا ہوں۔ کیا کیا تبدیلیاں لائوں؟میا سٹائل کیسا ہے؟‘‘ ’’چند تجاویز میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ اگر کوئی بات بری لگے تو برا نہ مانیے گا‘‘ ’’نہیں نہیں، بالکل نہیں، آپ فرمائیں۔‘‘’’میاں صاحب پہلی تجویز تو یہ ہے کہ آپ جلسے کو خطاب کرنے سے پہلے دہی کی لسی کے دو تین گلاس نوش فرما لیا کریں۔ میرا مطلب ہے پی لیا کریں‘‘ ’’لیکن ڈاکٹر نے تو صرف ایک گلاس کا کہا ہے‘‘’’کوئی بات نہیں، آپ بڑا گلاس لے لیا کریں‘‘ وہ پیتل کا، لمبا گلاس۔ آپ نے پرانی انار کلی میں دودھ دہی کی دکانوں پر دیکھا ہو گا‘‘ ’’ہاں ہاں دیکھا ہے، جب میں اور نواز شریف، گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے، اکثر ان دکانوں سے پیڑے والی بلکہ پیڑوں والی لسی پیتے تھے‘‘ ’’لسی پینے سے یہ ہو گا کہ آپ کا سٹائل بھٹو مرحوم سے ملنے کی بجائے نواز شریف کے سٹائل سے ملنے لگے گا۔ پرسکون، پروقار، دھیما اور مؤثر‘‘ دوسری بات یہ کہ آپ حبیب جالب مرحوم کی نظم ’’میں نہیں مانتا، نہ پڑھا کریں اور گایا تو بالکل نہ کریں۔ نہ صرف موسیقی جاننے والوں پر بلکہ عام لوگوں پر بھی اس کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ ویسے بھی یہ نظم اس طبقے کے خلاف ہے، جس سے آپ کا تعلق ہے۔‘‘