تو کیا یہ درست ہے کہ جس شہر میں بدی جڑیں پکڑ جائے اور لوگ راہ راست سے بھٹک جائیں اسی نسبت سے اس شہر کے ولی اللہ کا مزار عالیشان اور وسیع ہوتا جاتا ہے؟ یعنی یہ احساسِ جُرم ہے جس کی وجہ سے آج کے لوگ اپنے شہروں میں واقع اللہ سے قربت رکھنے والے لوگوں کے مرقدوں کی وسعت کیلئے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ داتا صاحب کی مانند میں تب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا جب پہلی بار کراچی گیا۔ ایک شب ہمارے استاد سکول کے سب بچوں کو کراچی سے دور ایک ویران رات میں ایک ویران ساحل سمندر کی قربت میں واقع ٹیلے پر لے گئے۔ تب ہم نہیں جانتے کہ درجنوں سیڑھیاں تاریکی میں طے کرنے کے بعد ہم جہاں پہنچے ہیں وہ کس بزرگ کا مزار ہے۔ وہاں بھی ویرانی تھی۔ شائد کچھ چراغ جلتے تھے‘ ایک دو ملنگ حضرات فرش پر سو رہے تھے او کوئی نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہاں کوئی خاص عمارت نہ تھی۔ ان دنوں کراچی ایک ڈریم سٹی تھا۔ اب وہی مزار عبداللہ شاہ غازی کا کیسا شاندار اور پرہجوم ہو چکا ہے جب کہ کراچی جیسا ہو چکا ہے سب جانتے ہیں۔ ہم سکیورٹی کی بھول بھلیوں میں سے گزر کر جب داتا صاحب کے مزار کے گرد احاطے میں آئے تو اس کی وسعت سے جی خوش ہو گیا اور جب میں مرقد کی عمارت کے اندر داخل ہوا تو مجھ پر ایک اداسی کی کیفیت طاری ہو گئی جس میں ایک گوناسرگوشی کی آمیزش ہو رہی تھی کہ مرقد کی عمارت اور داتا صاحب کی قبر سب کے سب جوں کے توں تھے جیسے کہ میں نے بچپن میں دیکھے تھے۔ وہی مختصر سی پاکیزگی اور عبادت کی مہک والی عمارت۔ اگرچہ ابھی سویر تھی لیکن وہاں عقیدت مندوں اور عبادت گزاروں کی کمی نہ تھی اور مجھے بہت اطمینان ہوا یہ محسوس کر کے کہ وہاں بہت خاموشی تھی۔ لوگ فضول نوعیت کی گفتگو نہیں کر رہے تھے۔ بولتے تھے تو سرگوشیوں میں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد میں مزار کی جالی کے قریب ہو کر کھڑا ہو گیا اور مجھ پر اثر ہوتا گیا اس مقام کی قدامت کا۔ بزرگی کا اور یہاں دفن شخص کی روحانی عظمت کا جس کے نام سے لاہور داتا کی نگری کے نام سے پکارا گیا۔ خانقاہ علی ہجویراست خاک جاروب از درش بردار طوطیا کن یہ بدیدہ حق بیں تاشوی واقفِ درِ اسرار یہ متبرک و قدیمی تبصرہ یعنی خانقاہ عالیہ علی مخدوم گنج بخش غزنوی لاہوری لاہور کے مشہور و مزین مزاروں و مقبروں میں سے ہے۔ سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن شریف مزار پر موجود ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ اگرچہ ادب مزار کا بہت کرتا تھا اور ہزاروں روپے نذرانے بھیجتا تھا مگر باہر کی عمارات اس نے ایک بھی نہ چھوڑی۔ پہلے مزار کا گنبد نہ تھا مگر 1287ء میں مسمی نور محمد سادھو نے یہ گنبد بنوایا تھا۔ احاطے کے گوشے میں ایک عالی شان مسجد گنبد دار بنی ہوئی ہے۔ یہ مسجد حضرت نے خود بنوائی تھی مگر اب 1878ء میں دوبارہ بنائی گئی ہے۔ اس بزرگ نے ’’کشف المحجوب‘‘ کتاب بہ زبان فارسی تصوف کے علم میں ایسی لکھی کہ اس کا ثانی روئے زمین پر نہیں‘‘ (منشی کنہیا لال‘‘ تاریخ لاہور) ’’آپ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سعود عزنوی کی فوجوں کے ہمراہ یہاں لاہور آ گئے۔1039ء میں آباد ہو گئے۔ آپ 34سال یہاں مقیم رہے۔ آپ کا انتقال 1072ء میں ہوا۔ آپ اپنی تعمیر کردہ مسجد میں دفن ہوئے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حضرت علی مخدومؒ کے مزار مبارک پر چالیس روز کا چلّہ کاٹا اور پھر مزار مبارک کے پائوں کی جانب کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا: گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا کاملاں راپیر کامل‘ ناقصاں را راہنما فرش اور حاشیے اور چبوترے شہنشاہ اکبر نے بنوائے۔ دروازے کی بالائی سنگ مرر کی تختی پر مشہور زمانہ شاعر عبدالرحمن جامی کے بہ زبان فارسی مندرجہ ذیل اشعار درج ہیں: لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ایں روضہ کہ بانیش شدہ فیض است مخدوم علی راست کہ باحق پیوست از ہستی ہست نیست شد ہستی یافت زاں سال وصالش افضل رہداز ہست یہ حضرت مخدوم علی کی تربت ہے جو حق تعالی سے پیوست ہو گئے۔ اس عارضی دنیا سے رخصت ہو کر وہ ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں۔ (سید محمد لطیف’’تاریخ لاہور‘‘) داتا صاحب کے مرقد کی جالی سے ٹیک لگائے ایک صاحب ۔ سرخ و سپید رنگ۔ اونی ٹوپی اوڑھے ۔ دھاریدار گرم سویٹر اور شلوار قمیص میں۔ ایک سفید بھرواں داڑھی کے نکھار والے ایک صاحب اردگرد جمع لوگوں کو دھیمی آواز میں داتا صاحب کی حیات اور معجزوں کے بارے میں بتا رہے تھے ۔ میں بھی ہمہ تن گوش ہوا۔ کچھ دیر بعد میری موجودگی محسوس کی۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا تو خود بھی اٹھ بیٹھے’’بسم اللہ تارڑ صاحب‘‘ یہ خالد بیگ تھے۔ کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے تھے۔ زندگی بھر کا معمول تھا کہ ہر روز صبح سات بجے سے نو بجے تک داتا صاحب کے قدموں میں بیٹھے رہتے اور پھر وہیں سے دفتر چلے جاتے۔ میری خوش بختی تھی کہ وہ مجھے پڑھتے بھی تھے اور پہچان بھی رکھتے تھے۔ ان کی عنائت سے میں نے داتا صاحب کمپلیکس کے وہ گوشے بھی دیکھے جن کے بارے میں مجھے علم ہی نہ تھا۔ وہ نہائت محبت اور اشتیاق سے ہم سب کو لئے لئے پھرے۔اس دوران کسی نے میرے گلے میں گیندے کے دو ہار ڈال دیے۔ میں نے ڈالے رکھے کہ داتا کے ہار تھے۔ سنگ مر مر کی منقش دیوار پر ایک تختی آویزاں تھی۔ ’’مقدس مقام۔ صدری روایت کے مطابق یہ مقدس مقام حضور داتا گنج بخشؒ کی تعمیر کردہ پہلی مسجد شریف کا محراب ہے جہاں آپ نے اپنے مقتدی حضرات کو کعبۃ اللہ کی زیارت کروا کے سمت قبلہ کی تصدیق فرمائی۔‘‘ تاریخ میں درج ہے کہ جب داتا صاحب نے مسجد تعمیر کی تو کچھ حضرات نے سمتِ کعبہ کے بارے میں اعتراض کیا‘ تب انہوں نے قبلہ کی تصدیق فرمائی، مزار سے نکل کر صحن میں چلتے ہم عمارت کے زیریں حصے میں اتر گئے جہاں لنگر کے وسیع انتظامات تھے۔ میں نے اگر چنے کا پلائو لنگر کا نہ کھایا ہوتا تو یقینا داتا کا مہمان ہو جاتا۔ زیریں حصے میں حیرت انگیز طور پر عمارت میں گھرا ایک خوبصورت چمن زار ہے‘ بلند سایہ دار شجروں والا اور وہاں جامع مسجد داتا صاحب کے ایک خطیب سعید احمد نقشبندی کی قبر ہے۔ ایک اور حیرت تو ناقابل یقین تھی یعنی ایک کمرے کے اندر ایک ایسے انگریز کی قبر ہے جو داتا صاحب کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا تھا اور کتبے پر درج ہے ’’مرقد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی۔ تاریخ ولادت۔‘‘ تب ہم واپس مزار پر آئےکریں) اور مزار کی قربت میں واقع اس مختصر مسجد میں نوافل ادا کئے جو عین اس مقام پر تھی جہاں تقریباً ایک ہزار برس پیشتر داتا گنج بخش نے مسجد تعمیر کی تھی اور وصیت کے مطابق وہاں دفن ہوئے تھے۔ محقق حضرات کا کہنا ہے کہ لاہور میں تین ایسی مساجد ہیں جنہیں قدیم ترین قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو قلعہ لاہور میں کہیں تعمیر کی گئی اور اب مقام کی نشاندہی مشکل ہے۔ دوسری ہال روڈ پر کیتھیڈرل سکول کے گیٹ کے برابر میں۔ جہاں پچھلی بار گئے تو بند تھی۔ ایک کمرے کی مسجد ہے اور تیسری یہ داتا صاحب کی تعمیر کردہ مسجد۔ جو تب سے آباد چلی آتی ہے۔ نوافل سے فارغ ہوئے تو خالد بیگ صاحب نے بہ کمال مہربانی مزار کے سامنے کھڑے ہو کر مجھے دستار بندی سے نوازا۔ ایک سبز چادر اوڑھا دی۔ میرے لئے یہ اتنا بڑا اعزاز تھا کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ ادھر وہاں موجود لوگوں نے جب ایک سفید بالوں والے باباجی کو ایک سبز چادر اوڑھے دیکھا تو وہ چلے آئے۔ دعا کرنے کی التجائیں کرنے لگے۔ میری حیات کی چادر پر تو سو سو داغ دھبے تھے۔ اس داتا کی چادر نے انہیں وقتی طور پر روپوش کر دیا۔ تو میں نے متعدد لوگوں کے لئے نہائت شرمندگی سے دعائیں کیں کہ شائد علی ہجویری کے ناتے قبول ہو جائیں۔ خاص طور پر ایک ایسے پریشان حال شخص کے لئے جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ تب میں نے خالد بیگ سے کہا کہ میں اس چادر کے لائق نہیں‘ اسے کسی اور لائق کے لئے رکھ لیجئے تو وہ کہنے لگے’’تارڑ صاحب یہ تو آپ کو داتا گنج بخش نے بخشی ہے۔ ہم نے تو نہیں۔‘‘ ’’حضرت داراشکوہ نے اپنی کتاب’’سفینتہ الاولیاء میں لکھا ہے کہ میں چالیس روز برابر حضرت کے مزار پر حاضر ہوتا رہا اور جو مطلب چاہا مجھ کو طفیل حضرت کے جناب الٰہی سے حاصل ہوا۔‘‘ علی غزنوی آن شاہِ ہجویر سراپا نور روشن ماہِ ہجویر (تحقیقاتِ چشتی)