تین عشروں پرمحیط تحریک آزادی کشمیرمیں نہایت قلیل ایسے ادیبوں ،قلم کاروں اورانقلابی شاعروں کی ہے کہ جوبھارتی فوج کی بربریت کے باوجودحریت وآزادی کے نقیب رہے ہیںاورصفحہ قرطاس پراپنی جرات مندانہ نگارشات سے دشمن بھارت پربجلیاں گراتے رہے اور باد صرصرمیں بھی شمع آزادی کو اپنے خون جگراورخون تمناکے روغن ناب سے روشن کرتے چلے گئے ۔بھرپور عزم وہمت کے ساتھ تحریک آزادی اورمجاہدین صف شکن کے حق میں لکھتے رہے ،ہدی خوانی اورروح وبدن کوجھنجوڑنے والی غزل خوانی کرتے رہے ۔لیکن ارض کشمیرپرجس نے بھی قلم کوتحریک آزادی کو تقویت بخشنے کے لئے استعمال کیااورزبان سے آزادی کے نغمے گاکر اس خارزارمیں قدم رکھاتو ایسی دلیری کی پاداش میں اسے قابض بھارتی فوج کی ستم کاریوں، زنجیروتعزیر،صلیب وسلاسل ،طوق اورقفس کے دشت کی سیاحی اس کا مقدر ٹھری۔ سفاک بھارتی فوج نے اسے گرفتارکرلیااذیت ناک ٹارچرسلوں سے گذارا یاپھر شہید کر ڈالا۔ انہی بے باک اوربہادرادیبوں میں سے ضلع کپوارہ کے علاقہ ماورکے گائوشاٹھ گنڈ قلم آباد سے تعلق رکھنے والے کشمیرکے ایک نامورادیب اورشاعر علی محمد شہبازبھی تھے ۔ علی محمد شہباز نے اپنی شاعری ’’جوکشمیری زبان میں تھی‘‘ سے کشمیرکے شہبازوں’’مجاہدین ‘‘ کوگائوموتر پینے والے دشمن بھارت اورسرزمین کشمیر پر ہندو استبداد کو پچھاڑنے اورجھپٹنے پلٹنے اورپلٹ کرجھپٹنے کا حوصلہ بخشتے رہے ،علی محمدشہبازکی راہنمائی پرمجاہدین بھی ان سے والہانہ لگائو رکھتے تھے ۔لیکن یہ کیسے ممکن تھاکہ کشمیرکی تحریک آزادی کے اس نغمہ خواں کوسفاک بھارتی فوج اوراس کے آلہ کارزندہ رہنے دیتے ۔وہ تاک میں تھے کہ موقع ملنے پروہ اس آوازکوبندکردیں۔بالآخر4جولائی 1996ء کودشمن نے رات کی تاریک شب میں علی محمدشہبازپرپے درپے کئی گولیاں چلاکر شہیدکردیا۔ تحریک آزادی کشمیرکے اس نغمہ خواں کی نغمہ خوانی نہایت طویل ہے۔ کالم کی تنگ دامنی کے باعث اس کااحاطہ ممکن نہیں تاہم مشت از خروارے ان کے صرف دوشعرلکھ دیتا ہوں تاکہ ہمارے قارئین کواندازہ لگ سکے کہ شہبازانقلابی شاعری کے کس اوج کمال پرمتمکن تھے۔ کمو گلابو یہ زوو فدا کر وہ دی زے فتح و ظفر خدایا بہ پاس خیرالبشر کرکھناکشیر رحم تچ نظر خدایا بہ آلہ نآون یہ شہبازی تمن عقاب تہ سرفروشن یمن کنڈن پیٹھ پیوان گزارن یہ کریوٹھ شام و سحر خدایا ترجمہ!یاخداارض کشمیرپریہ جوگلاب جیسے چہرے نوجوان تیرے دین کی سربلندی کے لئے جان دے رہے ہیں،انہیں ظفریاب وفتحیاب فرما۔ خیرالبشرصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کشمیرپراب رحمت کی نظرفرما۔ میں’’شہباز‘‘ اپنی جان کشمیرکے ان عقابوںاورسرفرشوںپرنچھاورکردوں،جنکے مشکل شام وسحر’’شب وروز‘‘ویرانوں میں گذارنے پڑتے ہیں ۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ہر دور میں پاسبان حرمت قلم زہر کھا کر قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے یاپھرتختہ دار پر چڑھ کر ظلم کو ظلم اور سچ کو سچ کہہ کر لازوال تاریخ رقم کرتے رہے ہیں۔ صحافیانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کرجابر حاکم کے سامنے کلمہ الحق کہنے کے لئے قلمی محاذ پر کھڑے رہے۔ جرات و بے باکی کے ساتھ ایک شخص کھڑا رہے اور ظالموں اور سفاکوںکے کرتوت بد اور انکے ظلم و جبر کو طشت از بام کرتے ہوئے برادارن وطن کوباخبررکھے یہی صحافت کہلاتی ہے ۔صحافت محض ایک شعبہ نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کا ایک اہم ستون ہوتاہے جس کی وجہ سے ہی اسے بڑی اہمیت و افادیت حاصل ہے۔ مظلوم خطوں میں نشان منزل دکھانے والی جرات مندانہ اوربے باکانہ صحافت مظلوموں کوحوصلہ بخشتی رہتی ہے اورانکے دلوں کو دھرکتے رکھنے کاسامان فراہم کرتی ہے ۔جب کوئی ا دیب، قلمکاراورشاعر آزادی کاعلمبردار بن کرقلم اٹھاتاہے اورمضراب کے ٹوٹے ہوئے تارجوڑتاہے تویہ غلامی کی قعر مذلت میں پڑی قوم کوجگانے کاباعث بنتاہے ۔اس کی نگارشات ،رشحات قلم ،اس کے شعر،اس کی غزلیں اوراس کے نغمے مظلوم خطوں کے لئے ایسی موسلادھاربارش کی مانندہوتی ہے کہ جل تھل ایک ہوکرہرطرف شادابی نظرآنے لگتی ہے۔ 1990ء سے ہی کشمیرکے تحریک نواز ادیبوں،صحافیوں،انقلابی شاعروں پرتشددکی کاروائیاں ڈھانے کے پیچھے جونامراداورمذموم مقاصد ہیں وہ یہ کہ کشمیرکے صداقت گواپنے قلم توڑ دیں ، زبانیںبند کریں، آزادی کے حصول کے طورطریقوں پر سوچنا ترک کریں، سچ بولنے سے باز آجائیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیاایسی دھرتی پریہ ممکن ہے کہ جہاں کی فضائیں رورہی ہیں،جہاں دریائو ں میںپانی کے بجائے خون بہہ رہا ہواورجبل ودشت نالہ فغاں ہوں۔کیاایسے میںقلم اورزبان خاموشی اختیارکرنے کے جرم کاارتکاب کرسکتاہے ،کیاحکایات خونچکاںلکھنے اورزبان سے اسے طشت از بام کرنے سے وہ خوفزدہ ہوسکتاہے۔اس میں کڑوا سچ کہنے کی ہمت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔اگریہ جرم ہے تووہ اس جرم کاارتکاب باربارکرتارہے گابے شک اسے قتل کی کڑی سے کڑی سز ادی جائے، صداقت بیانی پراس کا گلا دبوچ لیاجائے، خامہ حق بیان کی روشنائی اسے چھین لی جائے ، راست گوئی پراسے لہو لہو کفن میں لپیٹ لیاجائے، دن دھاڑے یاگھپ اندھیری رات میں بہیمانہ اندازمیں اسے شہید کیاجائے ،لیکن اس کے قلم اوراسکی نطق گوئی سے جرات ِاظہار ہوتارہے گا۔اپنی ملت کے گاجرمولی کی طرح کٹنے اسے موت کے گھاٹ اتارنے اسے بدترین درندگی کاشکاربنایاجائے توکیاکشمیرکے قلمی محاذ پرقبرستان کی خاموشی چھاجائے گی ہر گز نہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو انصاف کی دہائیاں دینے سے ان کاقلم اوران کی زبان ہرگزبازنہیں آسکتی ۔یہ سمجھناکہ کشمیری صحافیوں پرتشددڈھاناکوئی کارنامہ ہے نہیں ہرگزنہیں یہ بھارتی فسطائیت کی موت ہے۔ لوح وقلم کی پرورش کر نے والے ہاتھ فرضی اورجعلی جھڑپوں میں کشمیری نوجوانوں کوقتل کردینے،احتجاجوں اورمظاہروں کے دوران کشمیری عوام کے سینے چھلنی کرنے کے بھیانک جرائم طشت از بام ہوتے رہیں گے ۔