بھارت میں جہاں مسلمان ہر شعبے میں اس قدر پیچھے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کے فقدان کی وجہ سے ان کی بستیاں دور سے ہی پہچانی جاتی ہیں، علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مشرق میں جس میں سول لائنز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کی وجہ سے وجود میں آئی لاتعدادمسلم اشرافیہ کی بستیاںغالباً واحد ایسی جگہیںہیں، جہاں مسلمانوں کا عظیم ماضی اور شان و شوکت جھلکتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف اس وقت بھارت کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی کھڑکی کا کام کر رہی ہے، بلکہ ان کی ثقافت اور شناخت کی ایک اہم علامت بھی ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اس ادارے نے جنوبی ایشیا کو آٹھ سربراہان مملکت دیے ہیں، جن میں سے پانچ پاکستان کے حکمران رہے ہیں۔ بقیہ بھارت، مالدیپ اور بنگلہ دیش کے صدور کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے چار وزراء اعلیٰ اسی یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے یونیورسٹی کی صد سال تقریب کے موقع پر بھارتی وزیرا عظم نریندر مود ی نے بھی اس ادارہ کے خوب گن گائے، مگر اس کی ترقی یا مالی مشکلات کے ازالہ کیلئے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنوبی ا یشیاکے سربراہان مملکت ایک ساتھ مل کر علی گڑھ کے جشن میں شامل ہوکر اسکے تابناک ماضی کو یاد کرتے۔ بھارت میں ماضی کی حکومتیں اسے ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کرتی آئی ہیں۔ مودی حکومت پہلی ایسی حکومت ہے جس نے عدالت میں حلفیہ بیان دیکر یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ ادارہ ہندو فرقہ پرستوں کے نشانہ پر رہا ہے۔ اسلئے سوال ہے کہ آخر مودی نے صدر سالہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حثیت سے شرکت کرنے پر کیوں اصرار کیا؟ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے صدر رام ناتھ کووند کو مدعو کیا گیا تھا۔ کیونکہ صدر تمام مرکزی یونیورسٹیوں کا وزیٹر ہوتا ہے اور ان کی مجلس عاملہ اور انتظامیہ کا اسی کے دستخط سے تقرر ہوتا ہے اور شاید انکو گمان تھا کہ مودی تقریب میں شرکت نہیں کرینگے۔ معروف صحافی سید فاضل پرویز کے مطابق جس طرح سے امریکی صدر بارک اوباما نے عالم اسلام کو مخاطب کرنے کیلئے مصر کی جامعہ ازہر کو منتخب کیا تھا، اسی طرح مودی نے مسلم دنیا کو پیغام دینے کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کا انتخاب کرکے موقعہ کا فائد ہ اٹھایا۔ پرویز کے مطابق عرب حکمرانوں کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کے پیش نظر مودی حکومت کے لئے ضروری تھا کہ وہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں بھارتی مسلمانوں کی حالت زار ان کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک اور مختلف قوانین کے بہانے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔ اس کے لئے خیالات اور لب و لہجہ کی حد تک ہی سہی‘ تبدیلی ضروری تھی۔ گو کہ سرسید احمد خان نے 1877ء میں ہی اینگلو محمڈن کالج کی داغ بیل ڈالی تھی، مگر ایک طویل جدوجہد کے بعددسمبر 1920ء میں ہی برطانوی حکومت نے اسکو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (حال اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی۔ گو کہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کیلئے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اسکے نظام اور طریقہ کار پر ان میں اختلاف رائے تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما ء کے قتل عام سے پریشان مولانا قاسم نانوتوی نے 1866ء میں سہارنپور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر ایک انار کے پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن ،بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں ام المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے دس سال بعد مولوی مملوک کے دوسرے شاگرد سر سید احمد خان نے دہلی کے جنوب مشرق میں 250کلومیٹر دور آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی جس پر انہیں کفر کے فتوے سے بھی نوازا گیا۔ سرسیدمذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرکے انکو موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان کو مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کے قابل اور قیادت کا اہل بنانا چاہتے تھے۔ اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چلینجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دونوں کا لائحہ عمل متضاد رہا ہے۔ سیاسی بیدار ی اور ملًی تقاضوں کا ادراک کرنے کی وجہ سے اس ادارے کے طالب علموں نے ہر محاذ پر سرگرمی دکھائی ہے۔ ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک ترک پروفیسر گیل مینالٹ کے مطابق 1912-13کی جنگ بلقان کے موقع پر ترک سلطنت کی مدد کیلئے علی گڑھ کے طالب علموں نے ڈنر اور لنچ پر خرچے کم کرکے اور کئی نے روزے رکھ کر ترک ریلف فنڈ کیلئے ایک خطیر 13,800عثمانی لیرا کے برابر رقم جمع کرکے استنبول روانہ کی تھی۔ آج کے حساب سے یہ رقم 42ملین ترک لیرا یعنی پانچ ملین ڈالر بنتی ہے۔ ڈاکٹر احمد مختار انصاری ، جنہوں نے بعد میں کانگریس اور مسلم لیگ کے صدر کے عہدے سنبھالے، نے اسی ادارے کو مرکز بنا کر ترک حکومت کی مدد کیلئے ایک میڈیکل مشن تشکیل دیکر رضا کار منتخب کئے، جن میں پاکستان کے نامور سیاستدان چودھری خلیق الزمان بھی شامل تھے۔ خلیق الزمان لکھتے ہیں کہ جب وہ ایک دن کالج کے ٹینس کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے ، کہ انصاری ان سے ملنے آئے اور ان کو ترکوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے چند گھنٹوں کے بعد ہی وہ استنبول جانے کیلئے بوریہ بستر باندھ رہے تھے۔ اس یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں میں ، جو ڈاکٹر انصاری کے میڈیکل مشن کا حصہ بنے ، کشمیر کے بارہمولہ قصبہ کے عبدالرحمان پشاوری (صمدانی) بھی تھے، جن کے دادا پشاور میں جا بسے تھے۔ جنگ بلقان کے بعد جب میڈیکل مشن کے دیگر افراد واپس ہندوستان لوٹ آئے، پشاوری ترکی میں ہی مقیم رہے اور بعد میں مصطفیٗ کمال اتا ترک نے ان کو افغانستان کا سفیر مقرر کیا۔ وہ ترک نیوز سروس انادولو ایجنسی کے پہلے رپورٹر بھی تھے، جو 1920میں ہی قائم ہو گئی تھی۔ جب برطانوی حکومت ایک عرصہ تک علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی، تو کسی نے مسلم اکابرین کو مشورہ دیا تھا کہ فی الحال یونیورسٹی کو متحدہ ہندوستان کے باہر قائم کرکے آزادی کے بعد اسکو واپس منتقل کیا جائے۔(جاری)