ڈاکٹر انصاری کی نظر انتخاب ترکی پر پڑی اور اس سلسلے میں انہوں نے سلطان اور اس وقت ان کے وقف کے وزیر سے ملاقاتیں کی۔ ترکی کے سینیئر سفارت کار براک اکبر کے مطابق انقرہ کے ریلوے اسٹیشن کے پاس 65,000ایکڑ کی زمین بھی منتخب کی گئی اور دیگر کیمپس کیلئے اڈانا اور کونیا میں بھی 25,000ایکڑ کی زمین کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر کو لکھے خطوط میں انصاری نے یونیورسٹی کے پلان کو مسلم نشا ۃ ثانیہ سے تشبیہ دیکر اسکے نصاب کیلئے شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے مشورہ کرکے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر جلد ہی پہلی عالمی جنگ کی شروعات نے اس منصوبہ کو کھٹائی میں ڈال دیا اور میڈیکل مشن کے اکثر افراد بھی ہندوستان واپس لوٹ گئے۔ مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر 1000 ایکڑ پر محیط علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں فی الوقت 30ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ 11ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف 350مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے۔ جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اسکی رینکنگ چھٹے نمبر پر ہے، اس کا میڈیکل کالج نویں مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارہ کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ حکمران بی جے پی اور اسکی مربی تنظیم آرایس ایس کے لیڈروں کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتاجس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔2015 میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ سکولوں میں داخل ہونے والے 100بچوں میں سے صرف 11 اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ہندوئوں میں یہ تعداد 20 فیصد اور عیسائیوں میں31 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی میں کہا : ''ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے‘‘۔ گویا جو سیکولرزم بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی اصطلاح کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ مسلمانوں نے قائم نہیں کیے، بلکہ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے معرض وجود میں آئے۔ ایک کالج کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کرنے کا آخر اورکون سا طریقہ ہے؟ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ بہرحال، علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔60کی دہائی میںاسوقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے کیمپس کے ایک معمولی واقعہ کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا تھا، جس کو 1967ء میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جد وجہد کے بعد 1981ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ اسی پارلیمانی ایکٹ میں خامی‘ نکالتے ہوئے 20 اکتوبر 2005ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونیورسٹی اور اسوقت کی من موہن سنگھ حکومت نے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ کیس زیر سماعت ہے۔ علیگڑھ نے یقینا مسلمانوں کی قیادت اور تعلیم کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سرسید نے جو خواب سجاکر اس کی بنیاد ڈالی تھی، خاصی حد تک اس کے طالب علموں نے اسکو پورا کیا ہے۔یونیورسٹی کے سابق نائب وائس چانسلر پروفیسر حنیف بیگ کو میڈیسن (طب) کے میدان میں بھارت کے 'Outstanding Scientist Award سے حال ہی میں سرفراز کیا گیا۔ وہ امراض قلب کے نامورسرجن ہیں ۔ ایک دوسرے سائنسداں ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیق ہیں۔ جنہوں نے شراب نوشی سے ہونے والے جگر کے کینسر کے کلیدی سبب کو دریافت کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سید رفعت اللہ کو طب یونانی میں بھارتیحکومت کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’لائف ایچومنٹ ایوراڈ برائے بیسٹ ریسرچر‘‘ کا دیا گیا۔ ڈاکٹر رفعت نے 250 جڑی بوٹیوں کے مضر و مفید اثرات کا مطالعہ کیا ہے جو سعودی عرب کی 395 دیسی ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر بشریٰ عتیق کو طبی علوم میں نمایاں کارنامہ انجام دینے کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے سب سے بڑے انعام ’شانتی سروپ بھٹناگر پرائز برائے 2020‘ سے سرفراز کیا گیا۔ حال میں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری طبی ادارہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے کوویڈ 19 کے ویکسن تیسرے مرحلہ کے ٹرائل یا تجربات کا ذمہ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کو تفویض کیا ہے۔ تمام تر وسوسوں اور اندیشوں کے باوجود علی گڈھ کی شان و شوکت اور جاہ جلال کو اس ادارے کے طالب علموں اور اساتذہ نے برقرار رکھا ہے۔علی گڑھ کا ہر گلی کوچہ یونیورسٹی کے طالب علم اور شاعر اسرارالحق مجاز کی مادر درسگاہ کی نذر کی ہوئی مشہور نظم کی عملی تصویر ہے: ہر شام ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شب شیراز یہاں ہے سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں فطرت نے سکھائی ہے ہم کو افتاد یہاں پرواز یہاں گائے ہیں وفا کے گیت یہاں چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں ذرات کا بوسہ لینے کو سو بار جھکا آکاش یہاں خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے باطل کی شکست فاش یہاں